تحریک انصاف بکھرنے کا تاثر!

پاکستان میں سیاست چند خاندانوں کے گرد گھومتی ہے، اس ضمن میں ہر پارٹی کی صورتحال تقریباً ایک جیسی ہے، عمران خان نے موروثی سیاست کے خلاف نعرہ بلند کیا تو تحریک انصاف کی صورت لوگوں کو ایک ایسی سیاسی جماعت ملنے کی توقع ہونے لگی کہ شاید یہ جماعت پاکستان کا مستقبل محفوظ بنانے میں مؤثر ثابت ہو سکے، مگر اب تحریک انصاف میں بھی موروثی سیاست شروع ہو چکی ہے۔ ملتان سے این اے 157 کا ٹکٹ شاہ محمود قرشی کی صاحبزادی مہربانو قریشی کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے حالانکہ اس سے قبل شاہ محمود قومی اسمبلی کے رکن ہیں، ان کے صاحبزادے زین قریشی پنجاب اسمبلی کے ممبر ہیں، اب اسی گھرانے میں تیسرا ٹکٹ جاری کر کے موروثی سیاست کو تقویت دی گئی ہے۔ عمران خان کی وہ تقاریر ریکارڈ پر ہیں جن میں وہ برملا کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی سیاست کا محور موروثی سیاست کا خاتمہ ہے، مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج وہ اپنے طے کردہ اصولوں کے خلاف کھڑے ہیں۔
تحریک انصاف میں پارٹی سطح پر ہونے والے بعض فیصلوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ جماعت بھی بالآخر روایتی سیاست کا حصہ بننے جا رہی ہے، پنجاب میں وزارت اعلیٰ کی آڑ میں ایسا کھیل کھیلا گیا ہے جو بظاہر تحریک انصاف کی کامیابی نظر آ رہی ہے مگر حقیقی طور پر اس کے نقصان کا باعث بنے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے بچے ملک سے باہر ہیں، اس بات کے امکانات نہایت محدود ہیں کہ ملک آئیں اور اس سیاسی عمل کا حصہ بن جائیں جسے وہ جانتے نہیں ہیں، عمران خان عمر کے اس حصے میں ہیں کہ ان کے متبادل کی طرف ذہن جانا ایک فطری امر ہے۔ ہماری دانست میں چوہدری پرویز الہی کو بلاوجہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ نہیں بنایا گیا ہے بلکہ اس کے پیچھے دیرپا مفاد کا عنصر کارفرما ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ اگر آنے والے وقت میں عمران خان سیاست سے آؤٹ ہوتے ہیں تو تحریک انصاف کی قیادت کیلئے بیک اپ تیار رکھا جائے، ملتان کے شاہ محمود قریشی خود کو عمران خان کا متبادل سمجھنے لگے تھے مگر تحریک انصاف کا ایک دھڑا پارٹی کے اندر سے ان کے مخالفت کرتا ہے، سو شاہ محمود قریشی کے آگے آنے کا راستہ بند ہوتا دکھائی دیتا ہے، لے دے کر چوہدری پرویز الہی کا نام بچتا ہے، پنجاب کے چند سرکردہ سیاسی گھرانے ان کے ہمنوا ہوں گے۔ چوہدری پرویز الہی کے پیش نظر اگر وسیع مفاد نہ ہوتا تو وہ قطعی طور پر چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ خاندانی تعلق نہ توڑتے۔ ہمارے مؤقف کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ق لیگ کے سبھی ممبران پنجاب اسمبلی کا چوہدری شجاعت حسین کے خلاف جانا آسان نہ تھا یہ سب ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا ہے۔ شہباز گل کی گرفتاری پر چوہدری پرویز الہی کا اس کے بیان سے اعلان برأت کرنا ساری کہانی عیاں کر دیتا ہے۔
اگر ہمارے خدشات سچ ثابت ہوتے ہیں تو تحریک انصاف بکھرتی ہوئی نظر آ رہی ہے،کیونکہ تحریک انصاف کا ووٹر عمران خان کو پسند کرتا ہے وہ کسی دوسرے لیڈر کو دل سے تسلیم نہیں کرے گا، دوسری اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے زیادہ تر ووٹر نوجوان ہیں جو روایتی سیاست اور سیاستدانوں کو پسند نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی پرانے سیاست دان نوجوانوں کے جذبات کو سمجھتے ہیں اس لئے قوی امکان ہے کہ تحریک انصاف کے سپورٹرز عمران خان کی متبادل قیادت کے ساتھ ایڈجسٹ نہ ہو سکیں گے۔ تحریک انصاف میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو راستے سے ہٹانے کیلئے کئی لوگ پارٹی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان جب جلسوں میں شرکت کرنے لگیں تو پارٹی میں ایک گروہ متحرک ہو گیا تھا جس کے بعد ریحام خان کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ عمران خان اور ریحام کے رشتے میں یہاں سے دراڑ پڑنا شروع ہوئی، ریحام خان نے اس بات کو دل پر لے لیا تھا کہ لوگوں کے کہنے پر عمران خان نے کیسے یقین کر لیا۔ یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کا جو گروہ عمران خان کی بیوی کی جانب سے پارٹی کے معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کر سکا وہ دوسرے لوگوں کی مداخلت کیسے برداشت کر لے گا؟
چند روز قبل کہا جا رہا تھا کہ تحریک انصاف مقبول ترین جماعت ہے مگر شہباز گل کی گرفتاری تحریک انصاف کو بیک فٹ پر لے گئی ہے، تحریک انصاف کی صفوں میں مکمل خاموشی ہے، ایسے حالات میں دو صورتیں متوقع ہیں، ایک یہ کہ تحریک انصاف جارحانہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لے، اس صورت میں انہیں اس الزام کا سامنا کرنا پڑے گا کہ تحریک انصاف نے اندرون خانہ سمجھوتہ کر لیا ہے، اہم یہ بھی ہے کہ کیا عمران خان جارحانہ سیاسی رویے کو ترک کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے؟ دوسری ممکنہ صورت یہ ہو سکتی ہے کہ مزاحمتی سیاست کو جاری رکھتے ہوئے آئندہ مزید آزمائشوں اور گرفتاریوں کیلئے تیار رہا جائے،اگر آئندہ چند روز میں تحریک انصاف کی مزید گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ بیک ڈور رابطوں کے مثبت نتائج سامنے نہیں آ سکے ہیں۔

مزید پڑھیں:  تعلیمی ایمرجنسی بمقابلہ آؤٹ آف دی بکس