سوئی چھیدنے سے پہلے خود چھید تی ہے

پاکستان کے بے باک نڈر اور ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ عمر ان خان نے فرمایا ہے کہ وہ بنی گالہ میں بیٹھے ہوئے ہیں جس نے گرفتار کرنا ہے کرلے ، انھو ں نے یہ بھی فرما یا کہ یہ صرف لوگو ں میں خوف پیداکر نا چاہتے ہیں حقیقی آزادی کی تحریک سے پیچھے نہیںہٹیں گے ، یہ ارشاد ات مو صوف نے بنی گالہ میں تحریک انصاف کی پارلیمانی پا رٹی کے اجلا س کی صدارت کرتے ہوئے کہی ، اس اجلاس میں قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے والے پی ٹی آئی کے ارکان کے علا وہ وزیراعلیٰ پرویز الہی اور مونس الہی بھی شریک ہوئے ، پی ٹی آئی کے سربراہ عمر ان خان نے گرفتاری کاچیلنج اس وقت دیا جب ان کی اسلا م آباد ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت ہوگئی ہے ، اس سے قبل ایک رات ملک بھر میں پی ٹی آئی کے ورکر آدھی رات کے قریب گھروں سے نکل پڑے تھے گمان ہورہا تھاکہ اس رات عمران خان کو گرفتار کیا جا رہا ہے کارکن مختلف شہروں میں بھی رات بھرجمع رہے اوربنی گالہ میں بھی موجو د رہے تاکہ اپنے لیڈر کی حفاظت کی جا ئے اب معلو م نہیں کہ حکومت کی کیا نیت تھی ویسے ان کے ذرائع بتا رہے ہیں کہ کوئی گرفتاری کا پروگرام نہ تھا ، عمران خان کو تین دن کی عبوری ضمانت مل گئی ہے وہ ضمانت کی درخواست کے موقع پر عدالت میں حاضر نہ تھے ان کی ضما نت غیر حاضری میںمنظور کی گئی اب وہ 25اگست کو دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہو ں گے ، پاکستان میں ضمانت از قبل گرفتاری کی تاریخ بھی دلچسپ ہے بھٹو مر حوم کے دور میں منتقم مزاجی تھی چنانچہ سیا سی مخالفین گرفتاری سے بچنے کے لیے ہائی کورٹس سے رجو ع کیا کرتے تھے ، لاہور ہائی کو رٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق عبوری ضمانت کی درخواست دینے والے کی ضمانت منظور کرلیا کرتے تھے چاہے حتیٰ کہ اگر درخواست گزار یہ کہتا تھاکہ اس پرمزید پانچ چھ مقدما ت قائم کر کے گرفتا رکر لیا جا ئے گاچنانچہ جج صاحب مقدما ت کے اندرج کے بغیر ممکنہ مقدمات میں بھی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست قبول کرلیا کر تے تھے اس صورت حال پر پی پی کے دور میں پاکستان پینل کو ڈ 498میںترمیم کی گئی اور ایک نئی دفعہ 498-Aشامل کی گئی جس کے بعد ضما نت قبل از گرفتاری اس مقدمے میںہو سکتی ہے جو پہلے سے درج ہو ، علاوہ ازیں درخواست دائر کر نے والے کے لیے بہ نفس نفیس عدالت میں پیش ہونا بھی لا زم قرار پایا ، تاہم عمر ان خان پیش ہونے سے مستثنیٰ رہے ، اب یہ دیکھنا ہے کہ وہ دہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے موقع پر عدالت حاضر ہو تے ہیںیا نہیں یایہ ہی سہولت ان کو یہاں بھی حاصل رہے گی ، ادھر پیمرا نے عمر ان خان کی تقاریر برقی ذرائع ابلا غ پر براہ راست پیش کرنے پر پابندی لگا دی ہے ۔ یقینی طور پر یہ اقدام درست قرار نہیں پاتا سابق صدر ایوب خان کے دور میں بھی حزب اختلا ف کے رہنماؤں کے بیانات پر پابندی عائد تھی اگر کسی حزب اختلاف کے لیڈر کا کوئی بیان اخبار میں لگ بھی جاتا تو وہ کسی کونے کھدرے کالم میںجگہ پا تا اور غیر نما یا ں شائع کیا جا تا ، بعد ازاں بھٹومرحوم کا دور بھی ایو ب خان کے دور کے مقابلے میں زیا دہ گدلا پایا گیا ، کئی اخبارات و رسائل جبری بند کردئیے گئے صحافیو ں کو قید وبند کی صعوبتیں بھی اٹھانی پڑیں ایو ب خان اور بھٹودور میں صحافیو ں پر پریس آرڈی ننس کی تلو ار لٹکتی رہی جس سے چھٹکا ر ا جنرل ضیا ء الحق کے دور میں ہوا مگر ضیا ء الحق کا دور بھی مجموعی تاریک ہی قرار پاتا ہے ،اسی طر ح تحریک انصاف کا میںدور صحافت محولہ تینوں حکمرانوں سے زیا د ہ گھٹن سے لبریز رہا ، اس دور میں صحافیو ں کو اچک لیا گیا ، گولی کا نشانہ بھی بنے ، اور بہت کچھ ہوا یہ سب معلو م ہے اس کا ذکر کیا کرنا ، تاہم آج تک حکمر انو ںکے پلے یہ بات نہیں پڑی کہ اظہا ر رائے کی آواز کو دبانے کے نتائج خود ان کے لیے بھی کبھی سود مندثابت ہوئے ہیں ، اب توسوشل میڈیاکا دور ہے اور سوشل میڈیا (سماجی ذرائع ابلاغ) کی طاقت کا اندازہ سب سے زیا دہ عمر ان خان کو ہے انھوں نے ابلا غ کے ذرائع کے گلے خوب دبوچے مگر ان کا آہنی ہا تھ سوشل میڈیا کی طرف نہ بڑھ سکا اسی طرح ایک ٹی وی چینل کی نشریات کو بند کرنا بھی آزادی اظہا ر پر قدغن قرار پاتی ہے ، جس کی معزز معاشرے میں قبولیت کا کوئی امکا ن نہیںہو سکتا ، سوچنے کی بات ہے کہ اگر برقی ذرائع ابلا غ براہ راست عمر ان خان کی نشریات نہ کرسکیں گے تو جب ان کی ریکا رڈکی ہوئی تقریر یا پریس کا نفرنس پیش کی جائے گی تو اس کے مصدقہ ہو نے کے بارے میں کہا ں تک یقین کیا جا سکے گا یہ موصوف نے وہی کہا ہے جو نشر ہو رہا ہے ، سوائے بدگمانی کے کچھ حاصل نہ ہونا ، اور عوام کا برقی ذرائع ابلا غ پر سے اعتما د بھی متزلز ل ہو جائے گا جیسا کہ ماضی میں ہو تا رہا ہے ، ایوب خان ، بھٹومر حوم اور جنرل ضیاالحق کے دور میں سرکاری ٹی وی سرکا ری ریڈیو ہوا کرتا تھا ، جس پر قوم اعتما د نہیں کیا کرتی تھی جہاں تک اخبارات کا تعلق تھا تواس وقت ایو ب خان نے نیشنل پر یس ٹرسٹ قائم کرکے ملک کے کئی کثیر الا شاعت اخبار ارت پر قبضہ کرلیا تھا جن کی اشاعت سرکاری تحویل میں آنے سے قبل قابل رشک ہو ا کرتی تھی مگر سرکار کی جھولی میںگر نے کے بعد قابل ذکربھی نہ رہی حتیٰ کے یہ اخبارات سفید ہا تھی ثابت ہو ئے اور ان سے عاجز ہو کر ان چھٹکا را پایا گیا ، سوچنے کامقام یہ ہے کہ جیسا کہ عمر ان خان نے ایک معزز خاتون جج اور پولیس کے دو معزز افسروںکو جس لہجے میں پکا را ، معاشرے نے اس کو غلط ہی قرار دیا ، اگر ان کہے گئے جملو ں کو حذف کر کے پیش کیا جاتا تو کون سا سنبھالا ملتا اور نہیںکیا گیا تو کونسا بگاڑ ہوا بلکہ کہنے والے کے اس طرز عمل کو اچھی نگاہ نہیں مل پائی ، یہا ں ہرگز یہ کہنا نہیں ہے کہ جس کے منہ جو بات آئے وہ اگل دے ، اسی خلا ف ورزیوںکے لیے قوانین بھی موجو د ہیں راستے میں عیا ں ہیں جیسا کہ اسلام آبادہائی کورٹ نے توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کافیصلہ کیا ہے یہ سدھرا راستہ ہے ، ایسے اور بھی سدھر راستے ہیں جن پر عمل کر کے ماحول بگاڑنے والوں کا احتساب کیا جا تا ہے ، اظہا ر رائے پر قدغن قابل قبول نہیں ہو سکتی ، پابندی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پمرا نے لگائی ہے جس کسی کی طرف سے یہ قدم اٹھایا گیا ہے یہ نا مناسب قدم حکومت کی گردن پر ہی پڑے گا ، اور اس میںبھی مسلم لیگ ن کے ہی گلے ڈل جائے گا ، جس طرح پی ٹی آئی کاکیا دھرا ان کے گلے کا طوق بن چکا ہے ۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟