ہیجانی کیفیت کا خاتمہ!

نئے آرمی کی تقرری کا معرکہ سر ہوا، اس فیصلے کے بعد ہیجانی کیفیت کے خاتمے کی توقع ہے، جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری میں سنیارٹی کو مقدم رکھا گیا ہے، اس سے پہلے آرمی چیف کی تقرری میں سنیارٹی کو پس پشت ڈال دیا جاتا تھا جس سے اس بحث کا آغاز ہو جاتا کہ سنیارٹی لسٹ میں پہلے نمبروں پر موجود افسران کو نظر انداز کیوں کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف تعینات کیا تو وہ سنیارٹی میں ساتویں نمبر پر تھے، میاں نواز شریف کو سب سے زیادہ آرمی چیف کو تعینات کرنے کا اعزاز حاصل ہے انہوں نے بھی سنیارٹی میں ٹاپ لسٹ افسران کو تعینات کرنے کی بجائے بعد کے نمبروں کو ترجیح دی، اگرچہ سنیارٹی لسٹ میں موجود کسی بھی جنرل کو آرمی چیف کے عہدے پر تعینات کرنا وزیراعظم کا آئینی استحقاق ہے لیکن پہلے نمبروں کو نظر انداز کرنے سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگایا گیا ہے۔ قانون سازی کے ذریعے اس مسئلے کو ہمیشہ کیلئے حل کیا جا سکتا ہے جس طرح سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئے موسٹ سنیئر جج اہل سمجھا جاتا ہے اسی طرح آرمی چیف کیلئے بھی ایسا ہی نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے آخری وقت تک آرمی چیف کی تقرری کو متنازع بنانے کی کوشش جاری رکھی، صدر مملکت کو اپنی رہائش گاہ زمان پارک لاہور طلب کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ جس طرح وزیراعظم شہباز شریف آرمی چیف کی تعیناتی پر لندن جا کر نواز شریف سے مشاورت کر سکتے ہیں اسی طرح پارٹی سربراہ ہونے کی حیثیت سے انہیں بھی حق حاصل ہے حالانکہ صدر مملکت کا منصب غیر جانبدار ہوتا ہے عمران خان نے مگر انہیں طلب کر کے صدر کے منصب کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے
برعکس صدر مملکت نے اپنی آئینی ذمہ داری نبھاتے ہوئے سمری پر بروقت دستخط کر دیئے، یوں کئی ماہ سے جاری ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کے ضمن میں عمران خان روز اول سے حالات کے مخالف سمت کھڑے تھے، یہ آئینی معاملہ تھا جسے آئینی طریقے سے ہی حل ہونا تھا، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو جب زمان پارک لاہور طلب کیا گیا تو ممکنہ طور پر چند امور زیر بحث آئے۔ صدر مملکت نے چونکہ اس پہلے اپنے قانونی مشیروں سے رابطہ کر لیا تھا اس لئے انہوں نے عمران خان کو یہ باور کرا دیا کہ آرمی چیف کی سمری کو زیادہ دنوں تک روکنا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا ہے، اس کے باوجود اگر سمری کو روک لیا جاتا ہے تو جس طرح سے تحریک عدم اعتماد کے وقت آئینی بحران پیدا ہو گیا تھا اب بھی ایسا ہی بحران پیدا ہو سکتا ہے، جیسے اپریل میں تحریک انصاف کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اب کی بار بھی ویسی ہی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ تحریک انصاف آرمی چیف کی تعیناتی میں سنیارٹی کی بات کرتی رہی ہے، اتحادی حکومت نے کمال مہارت سے سنیارٹی میں پہلے نمبر کے افسر کو آرمی چیف تعینات کر دیا ہے اس لئے تحریک انصاف کے پاس بظاہر کہنے کیلئے کچھ نہیں رہا ہے تو صدر مملکت نے سمری پر فوری دستخط کر دیئے اور تحریک انصاف نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر لی۔
آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد کیا ملک میں سیاسی استحکام قائم ہو جائے گا، کیا ملک معاشی بحران سے باہر نکل آئے گا، کیا ادارے واقعی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں گے؟ یہ اور اس طرح کے کئی دیگر سوال ہیں جو مجھ سمیت ہر پاکستانی کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں، ارباب اختیار کا طرز عمل اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہی دراصل ان سوالوں کا حقیقی جواب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں عام شہریوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کا آرمی چیف کون ہے، خفیہ ایجنسی کا سربراہ کون ہے حتیٰ کہ سیاسی جماعتوں کو بھی اس غرض نہیں ہوتی ہے نہ ہی انتخابی مہم میں ایسے امور کو زیر بحث لایا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں آرمی چیف کی تعیناتی کو پاکستان کا اہم مسئلہ بنا دیا گیا جیسے ہمارے باقی مسائل حل ہو گئے ہوں۔ ایک ریڑھی والا بھی اس پر بحث کر رہا ہے کہ اگلا آرمی چیف کسے ہونا چاہئے، یہ اہل سیاست کی ناکامی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے الوداعی خطاب میں ان امور کا ذکر کیا ہے جنہیں بالعموم ہمارے ہاں زیربحث
نہیں لایا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ فوج نے فروری 2021ء میں فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرے گی، فروری 2021ء میں ایسا کیا ہوا تھا جس کا ذکر آرمی چیف نے کیا، تاریخ کے اوراق الٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سینیٹ انتخابات ہوئے تھے جس میں اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت کے باوجود انہیں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ماضی کی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا ہے کہ فوج نے غلطیوں سے سیکھ لیا ہے سیاسی جماعتیں بھی غلطیوں سے سیکھیں۔ آرمی چیف نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کے جس عزم کا اظہار کیا ہے وہ فرد واحد کی طرف سے نہیں ہے فوج بحیثیت ادارہ یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرنی ہے، اہل سیاست کو فوج کے اس فیصلے پر خوش ہونا چاہئے مگر یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اس بات پر شکایت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کا ساتھ کیوں نہیں دے رہی ہے۔ اہل سیاست کو اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانی ہو گی ورنہ ہر کچھ عرصہ کے بعد ایک ہی کہانی دہرائی جائے گی اور متاثرہ فریق بیٹھ کر رو رہا ہو گا۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟