میری بلا سے بوم رہے یا ہما رہے

خوشامد پرستی نے جہاں اس معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ لیا ہے ‘ جبکہ خوشامد پسندی بھی اس سکے کا دوسرا رخ ہے’ ذراکسی کو کچھ اختیارملا اور اس کے گرد”پروانوں” کی طرح لوگ اکٹھے ہونا شروع ہوئے ‘ اس کو ”بانس” پرچڑھا کر مفادات کے حصول میں لگ گئے ۔ اقتدار چیز ہی کم بخت ایسی ہے کہ اس پر ”جان نچھاور” کرنے والوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے ہیں اور کوئی شخص جو مقتدر ہونے سے پہلے کتنا بھی سادہ ‘ پرخلوص اور خوشامد سے دور بھاگتا ہو ‘ اپنے ممدوحین کی تعداد میں اضافہ دیکھ کربالآخر اس کا دل پسیج جاتا ہے اور وہ بھی آہستہ آہستہ اپنی خوشامد کرنے والوں کی چالوں میں آکر اس رویئے کا عادی بنتا چلا جاتا ہے ۔آ خر انسان ہی ہے ‘ اور وہ جو پشتو زبان میں کہتے ہیں کہ ”زڑہ د غوخے دے مجبور دے” یعنی دل گوشت کا ایک لوتھڑا ہے مجبور ہے ‘ تو خوشامد پرستوں کے نرغے میں رہ کر وہ بھی خوشامدی کلمات سننے کا عادی ہوجاتا ہے ‘ اس حوالے سے ایوبی دور کا ایک لطیفہ یاد آگیا ہے کہ ایک بار صدرایوب مرحوم اپنے چند وزراء کے ساتھ(سابق) مشرقی پاکستان کے دورے پر گئے تھے جہاں انہوں نے کچھ تقاریب میں شرکت کی اور منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا ‘ کچھ کا افتتاح کیا ‘ واپسی پر جہاز میں سفر کے دوران ایک وزیر نے سو روپے کا نوٹ نکال کر کہا اگر صدر صاحب اس نوٹ پر دستخط کردیں اور ہم اسے جہاز سے نیچے گرائیں ‘ یہ نوٹ جسے ملے گا وہ خود کو کتنا خوش نصیب سمجھے گا ‘ یاد رہے اس دور میں پاکستان میں سب سے بڑی مالیت کا نوٹ سو روپے ہی کا ہوتا تھا کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر بہت زیادہ تھی ‘ اس قسم کی خوشامدی الفاظ سن کر دوسرے وزراء کیسے پیچھے رہ سکتے تھے ‘ ایک اور نے پچاس پچاس کے دونوٹ نکالے اور کہا ایک شخص کیوں؟ اگر صدرصاحب ان دو نوٹوں پر دستخط کردیں اور ان کو گرا دیا جائے تو دو لوگ خود کو خوش نصیب سمجھیں گے ‘ بس پھر تو خوشامد کی دوڑ ہی لگ گئی ‘ تیسرے وزیر نے دس دس روپے کے دس نوٹوں پر صدر کے دستخط کی تجویز پیش کی ‘ ایک اور نے پانچ پانچ روپے کے بیس نوٹوں پر دستخطوں سے خوش نصیبوں کی تعداد میں اضافہ کیا ‘ جبکہ معاملہ یہاں رکا نہیں اور ایک خاص چمچے نے روپے روپے کی پوری گڈی پر دستخطوں کی تجویز دیتے ہوئے خوش نصیبوں کی تعداد سوکردی تو بھٹو مرحوم جو یہ سارا تماشا دیکھ رہے تھے ‘ ناگواری ظاہر کرتے ہوئے بڑ بڑائے aکیوں نہ صدرصاحب ہی کو نیچے پھینک دیا جائے ‘ پاکستان کے آٹھ لاکھ افراد سارے خوش ہوجائیں گے ‘ یاد رہے کہ ان دنوں مغربی اور مشرقی پاکستان دونوں کی آبادی آٹھ لاکھ کے قریب تھی ‘جبکہ ایوب خان کی پالیسیوں سے لوگ بیزار ہونا شروع ہو چکے تھے اور سیاسی مخالفین ایوبی حکومت کے خلاف سرگرم تھے’ بھٹو مرحوم کے بھی ایوب خان سے اختلافات ڈھکے چھپے نہیں رہے تھے اور بالآخر انہوں نے مستعفی ہو کر حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور بقول شاعر
میں نے جو آشیانہ چمن سے اٹھا لیا
میری بلا سے بوم رہے یا ہما رہے
بات خوشامد پسندی اور خوشامد پرستی کی ہو رہی تھی اور اس موضوع کوچھیڑنے کا کارن ایک خبر ہے جو سپریم کورٹ کے بطن سے پھوٹی ہے ‘ خبر یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سرکاری املاک اور دستاویزات پر سیاستدانوں اور پبلک آفس ہولڈرز کی تصاویر چسپاں کرنے پر پابندی عاید کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سرکاری وسائل پر ذاتی تشہیر کی اجازت نہیں دی جا سکتی ‘ پاکستان کسی کی جاگیر نہیں جہاں ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے چوکنا رہنا ہو گا ۔ سرکاری ا ملاک پرذاتی تشہیر کے لئے تصاویر چسپاں کرنا اخلاقی اقدار کو مجروح کرتا ہے ۔ سپریم کورٹ نے جس مسئلے کی نشاندہی کی ہے وہ اس وقت ہماری معاشرتی اور سیاسی زندگی میں بری طرح سرایت کر چکا ہے ‘ جب ہم اپنے لڑکپن کے دور میں جھانکتے ہیں تو ہمیں سکول کے دور میں کسی بھی محکمے کو لکھی جانے والی درخواستوں کی وہ عبارت یاد آجاتی ہے ‘ جن کی ابتداء بھی القابات سے اور اختتام بھی عاجزانہ پیرا یہ میں خود کو سائل قراردیتے ہوئے صاحب اختیار کے حق میں (اس کی آنے والی نسلوں تک کو)دعائیہ کلمات سے مزین کیاجاتا تھا ‘ دراصل اس کی ابتداء انگریزوں کی حکمرانی کے دور میں پڑا تھا جب ہندوستانی غلام قوم کے طور پرانگریز حکمرانوں کو گزارنے والی درخواستوں کی ابتدائ”بہ خدمت حضور’ فیض گنجور” جیسے القابات سے اور اختتام آپ کا تابعدار ‘ دعا گو وغیرہ وغیرہ جیسے الفاظ سے کی جاتی ‘ یہ سلسلہ آزادی کے بعد ایک طویل عرصے تک جاری رہا ‘ بلکہ اب بھی اس رویئے سے مکمل طور پر ہم جان نہیں چھڑا سکے ہیں یقین نہ آئے تو ذرا عدالتوں میں دی جانے والی درخواستوں کے الفاظ پر غور کریں ‘ یا مختلف سرکاری محکموں میں روز مرہ معاملات نمٹانے والی عرضیوں کے الفاظ دیکھیں وہی”غلامانہ رویہ” ہر جگہ موجزن نظر آئے گا ۔ ہمیں یاد ہے کہ جب ہم ریڈیو پاکستان میں ملازمت کرتے تھے تو بھی ایسا ہی ہوتا تھا ‘ خدا جانے کس کے جی میں آئی کہ اس صورتحال کی اصلاح کی کوشش کرتے ہوئے ماسوائے ہیڈکوارٹر کے ساتھ خط و کتابت جس کا سرنامہ ڈائریکٹر جنرل کے نام سے ہوتا تھا کے علاہ دیگر سٹیشنوں اور یونٹس کے ساتھ باہمی مراسلات میں لفظ سر (جناب) کی بجائے ڈیرسرلکھنے کاحکم ملا’ اور یوں ریڈیو پاکستان کے اندر خوئے غلامی سے نجات کا راستہ ہموار ہوا۔ گویا پرانے طور طریقے یہ کہتے ہوئے ترک کئے گئے کہ
ہم گدا گر نہیں ‘ بس یونہی تمہارے آگے
ہاتھ پھیلایا ہوا ‘ آنکھ جھکائی ہوئی ہے
خیربات کسی او رخ پر چلی نہ جائے ‘ واپس موضوع کی جانب آتے ہیںاور خوشامد پسندی اور خوشامد پرستی کی بات کرتے ہیں ‘ ذاتی تشہیر صرف کسی ایک شعبے میں موجود نہیں ہے بلکہ مختلف ادوارمیں شروع کئے جانے والے منصوبوں پر بھی تصاویر چسپاں کرنے کا رواج اس قدر شدت اختیار کیا جا چکا ہے کہ مثلاً غرباء کے لئے مالی فوائد سکیم ہو ‘ یاپھر صحت کے منصوبے ان کے لئے کارڈز جاری کرتے ہوئے شخصیات یا پھر پارٹی پرچموں سے بھی سیاسی مقاصد اور ذاتی تشہیر کے مقاصد پورے کئے جاتے ہیں یہاں تک کہ ناموں میں بھی پارٹی کے حوالے لازمی ہوتے ہیں ‘ ان سب پر بھی پابندی لگنی چاہئے ‘ اگر تصاویر دینی ہیں یا نام رکھنے ہیں تو بانیان پاکستان تک ان کو محدود رکھا جائے تاکہ ان سے خوشامد کی بونہ آئے۔
تصور ‘ خواب ‘ دروازے ‘ دریچے
کوئی آئے توکتنے راستے ہیں

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو