بغل میں سونٹا نام غریب داس

پی ٹی آئی کے چیئر مین عمر ان خان نے کہا ہے کہ انھو ں نے کبھی نہیں سوچاکہ ان کی مر ضی کا آرمی چیف ہو ہمیشہ سوچا کہ میرٹ پر فیصلہ ہو ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جرائم پیشہ لوگون کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنا کنٹرول رکھیں تاکہ پکڑے نہ جا سکیں انھو ں نے مزید یہ بھی فرمایا کہ ان کی اب پوری کوشش ہوتی ہے کہ فوج کو کنٹرول کریں ، کیاا ن کی اہلیت ہے کہ کہ ادارے کے سربراہ سے متعلق فیصلہ کریں انھو ں نے صرف ایک کام کیا کہ باری باری ایک ایک کر کے کیسز ختم ہو رہے ہیںخان صاحب نے اپنے انٹرویو میں ایک بات اہم کہی کہ معیشت کو ٹھیک کر نا ہے تو سیاسی استحکام سے ٹھیک ہو گا ،اور سیا سی استحکا م الیکشن سے آئے گا ، پی ٹی آئی کے چیئر مین کا یہ انٹرویو ایسے موقع پر آیا ہے کہ جب ایک قومی ادارے فوج کی کما ن میں تبدیلی کا فیصلہ آیا ، گمان تھا کہ اس نئی تبدیلی کے بارے میں مو صوف اپنی رائے کا اظہا ر کر یں گے ، انھوں نے چند الفاظ ہی کہے ہیں کہ انھو ں نے کبھی نہیں سوچا کہ ان کی مر ضی کا آرمی چیف آئے ، لیکن یہ بتانا ان سے رہ گیا کہ ان کے اقتدار کے ساڑھے تین سال تک ان کی مر ضی کا آرمی چیف تھا ، جس کے وہ گن ایک پیچ پر ہونے دن رات گا تے رہتے تھے وہ توجب پی ڈی ایم کا وجود روبہ عمل ہو ا اور نواز شریف نے اس مو قع پر جو تقریر کی اس کے بعد سے ان کی ایک پیچ پر ہونے کارٹا بندہو گیا ،بات یہ ہے کہ وہ آرمی چیف کی تقرری میں رخنہ انداز کا فی عرصہ سے رہے اور اس کے لیے انھو ں نے بھر پو ر مہم بھی چلائی ، جس وقت جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے تبدیل کر کے ان کو پشاور کو ر کا کما نڈر مقرر کیا جا رہا تھا تو اس وقت انھوں نے اس فیصلے کی کیوں مزاحمت کی تھی کیا یہ فیصلہ میرٹ کے مطا بق نہ تھا ، کیا جنرل فیض حمید کی جگہ لینے والے آئی ایس آئی کے سربراہ میں اہلیت کی کمی تھی ، یا جنرل فیض حمید کو ر کما نڈر کے اہل نہیں تھے کہ انھو ں نے مزاحمت کی اور اس امر کا برملا اظہار کر تے رہے وہ جنر ل فیض حمید کے معاملے پر ڈٹے رہے ان کے اس عمل کی وجہ سے پی ٹی آئی کے مخالف حلقوں میں جنرل فیض حمید کے بارے میں سو چ بھی بدلی ، اورجب ایک آئینی طریقے سے ان کو اقتدار کی مسند سے اتار دیا گیا تب سے اب تک وہ ایک پیچ کے پھٹے کا پھڈا ڈالتے رہے ہیںکن کن القاب سے نہیں پکارا جو کسی طور معزز انہ قرار نہیں پا تا ،کپتان کی اس بات سے کوئی بھی اختلا ف نہیں کر سکتا کہ سیا سی استحکا م ہی سے معیشت مستحکم رہ سکتی ہے ، اور اس کے لیے انتخابا ت کا انعقاد لازمی ہے ، ملک میں عدم سیا سی استحکا م زہر قوم سقوط ڈھاکا کے موقع پرپی چکی ہے وہ اس کے مضر اثرات کو بھگت چکی ہے کیا عدم سیا سی حالا ت خود بخود رونما ہو جاتے ہیں ، گزشتہ روز پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے چئیر مین رمیز راجہ کے ہمر اہ امریکی سفیر نے زمان پارک جا کر ملا قات کی اس ملا قات کے بارے میں سبھی جا نتے ہیںکہ ملا قات برطانیہ اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے ما بین راولپنڈی میں منعقد ہونے والے ٹیسٹ میچ سے متعلق تھی جس میں امریکی سفیر نے پی ٹی آئی کے چیئر مین سے ٹیسٹ میچ کے دوران امن واما ن کی یقین دہا نی لی تھی کیو ں کہ جہا ں پی ٹی آئی اپنی سیاسی سرگرمی جا ری رکھنا چاہتی ہے وہاں پڑوس ہی میں دونو ں ملکو ں کا ٹیسٹ میچ بھی ہونے جارہاہے ، امن اما ن کی ذمہ داری تو حکومت کی ہوتی ہے پھر ایک سیا سی جما عت سے براہ راست کیو ں یقین دہا نی چاہی ، جس سے شفاف عیاں ہے کہ سیاسی استحکام یا امن وامان کی ذمہ داری سیا سی جما عتوں یا ان قوتو ںپر بھی عائد ہو تی ہے جو اسے عدم استحکا م سے دوچار کر نے میں بھی کر دار ادا کرتے ہیں ،جہاں تک آرمی چیف کی تقرری جن مراحل سے گزری اس بارے میں سب منظر عام پر ہے ۔عمر ان خان کا مطالبہ یہ تھا کہ ان سے تقرری کے سلسلہ میں رائے لی جا ئے جو پی ڈی ایم کی حکومت نے لی آخر میں مو صوف نے فرمایاکہ صدر مملکت اور وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں چنانچہ جب تقرری ہو گی تو وہ اور صدر صاحب آئین و قانو ن کے تحت کھیلیں گے ، اگر وہ یہ فرما تے کہ قانو ن اور آئین کے دائر ے میں رہ کر جد وجہد کریں گے یا اس کی بالا دستی کو منو ائیں گے تو درست نہ تھا یہ کھیل کھیلنے کی بات تو اسی طرف جا تی ہے کہ جیسا کہ سائفر کے بارے میں ارشاد کیا گیا تھا کہ سائفر سے کھیلیں گے ، البتہ دیکھنے میں آیاکہ صدر صاحب اڑان بھر کر زما ن پارک تشریف لے گئے اور وہا ں آرمی چیف کی تقرری کی سمر ی پر عمران خان سے مشاورت ہوئی ، قلقلا خان جو دانشوری ہمہ وقت بھگارتے رہتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ صدرعارف علوی پاکستان کے صدرمملکت ہیں وہ پورے وفاق کی قیادت کرتے ہیں یہ عہد ہ سیا ست سے ہر لحاظ سے پاک رہتا ہے کیو ں کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے نمائندے کے طورپرایوان صدر میںمسند نشین نہیں ہوتے ، اگر انھو ں نے کوئی مشورہ کر نا تھا تو وہ ایو ان صدر میں ملا قات کر کے مشورہ کرتے لیکن جب وہ زمان پارک تشریف لے گئے تو وہ پارٹی کے کارکن کے کردار میں نظر آئے ، جس سے بہت چھوٹے پن کا نظارہ ہوا ، پھر کہا گیا کہ اس ملاقات کے بارے میںفواد چودھری نے دعویٰ کیا کہ ایو ان صدر سے پر یس ریلز کا اجراء ہو گا جو نہیںہو ا ، نہ عمر ان خان کی جانب سے بیانیہ آیااور نہ تقرری پر خیر مقدمی کے جملے اجا گر ہوئے ، البتہ ایو ان صدر سے تقرری کی منظوری کے نو ٹس کا اجراء ضرور ہو ا ، زمان پا رک کی اس ملا قات کے بارے میں بہت سی کہانیا ں ہیں جو اب ضروری نہیں رہیں ، البتہ فواد چودھری کی جانب سے پارٹی کا ایک بیانیہ جا ری ہو ا جس میں آرمی چیف سے ملک میں سیاسی استحکا م ، انتخابات اور دیگر کئی سیا سی مطالبات کیے گئے ، ملک کے دفاع کے بارے میں ایک جملہ نظر نہیںآیا ، اس پریس ریلز کوپڑھ کر لگ رہا ہے کہ جو مطالبات سیا سی حکومت یا سیاسی جماعت سے کیے جانے ہوتے ہیں وہ دفاعی ادارے کے سربراہ سے کیے جارہے ہیں ، فوج کا فرض منصبی ملک کا دفاع ہے نہ کہ ملک کی سیاست یا حکمر انی کے امور سے ہے جبکہ جنرل باجو ہ نے الودعی خطاب میں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ فوج کا اب سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے پھر بھی پی ٹی آئی ہر لمحہ فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی مساعی کر تی رہتی ہے یہ کیسی جمہوری پارٹی ہے کہ وہ پاکستا ن کو ڈیپ ریا ست بنائے رکھناچاہتی ہے آخر جمہوری اقدار بھی کوئی چیز ہے ،یا مفادات میں سب کچھ جائز ہے ، بھارت خود کو دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتاہے بھارت کو عالمی سطح پر جو مقام حاصل ہے اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ وہ ایک مستحکم جمہوری نظام پر کھڑا ہے ۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟