گورنرراج آئینی راستے محدود

گورنرراج آسان نہیں،پی ڈی ایم کیلئے آئینی راستے محدودہوگئے

ویب ڈیسک: آرمی چیف کی تقرری کو لیکر گذشتہ کئی مہینوں سے ملک میں جاری سیاسی اور معاشی ہیجان کوعمران خان کے صوبائی اسمبلیوں سے الگ ہونے کے اعلان نے ایک نئی انتہاء پر پہنچا دیاہے اس غیر یقینی میںپی ڈی ایم کیلئے آئینی راستے محدود ہورہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی اس وقت مضبوط پتے ہاتھ میں لئے ہوئی ہے یادرہے صوبائی اسمبلیوں سے الگ ہونے کا اعلان تو عمران خان نے26نومبر کو راولپنڈی کے ایک جلسے میں کیا تھالیکن اس کی توثیق پیر کے روز شام کو پی ٹی آئی کی پارلیمانی جماعت نے کردی ہے
اس کے بعد سے سیاسی حلقوں میں مختلف قسم کی افواہیں ہیں جبکہ اقتدار کے ایوانوں میں گورنر راج کے علاوہ تحریک عدم اعتماد اور دیگر ذرائع بھی زیر بحث ہیں تاہم پی ڈی ایم کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت الیکشن ان کے حق میں نہیں کیونکہ موجود حالات میں وہ اڑ جائیں گے اس طرح دونوں اسمبلیوں کااجلاس بھی جاری ہے اپوزیشن کو عدم اعتماد کی تحریک لانے کیلئے جاری اجلاس ختم کرانااور دوبارہ اجلاس بلانا پڑے گا اسمبلی میں عدد ی لحاظ سے اقلیت میں ہونے کی وجہ سے اپوزیشن کیلئے یہ مشکل ہوگااور حکومت کی جانب سے بھی اس کی مخالفت کی جائے گی خدشہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی اکثریت کے باعث خیبر پختونخوا میںاستعفے آنے کے بعد اس کی منظوری میں سپیکر ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں کرے گااوروزیراعلیٰ کی منظوری سے یہ اسمبلی تحلیل ہوجائے گی جس کو بعدمیں صرف عدالتوں میں چیلنج کرنے کا امکان رہ جائے گا
اس طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بھی یہ واضح نہیں کیاگیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں70فیصد سے زائد ممبران کے استعفے آنے کے بعد صوبہ بھرمیں عام انتخابات ہوں گے یا پھر خالی کردہ نشستوں پر ساٹھ روز میں ضمنی الیکشن کرایا جائے گا اس طرح اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کیلئے صوبوں میں گورنر راج کا نفاذ ممکن نہیں رہا ہے جس کی وجہ سے پی ڈی ایم کیلئے یہ ایک بڑا سر پرائز ہے پی ڈی ایم کیلئے مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر خیبر پختونخوا کی اسمبلی تحلیل کردی جاتی ہے تو صوبہ بھر میں مکمل انتخابات کرانے کے حوالے سے کوئی آئینی پابندی نہیں بلکہ ملک بھر میں الگ الگ انتخابات ہوسکتے ہیں اور اس میں کوئی آئینی اور قانونی رکاوٹ نہیں ہوگی۔

مزید پڑھیں:  مئیر لندن کا انتخاب کل،صادق خان کا کئی حریفوں سے مقابلہ ہوگا