tanveer ahmad 8

طبی عملہ کیلئے سہولیات کا فقدان

کل ہمیں ایک مہربان کہنے لگے کہ اپنی گفتگو بات چیت میں کرونا کا ذکر کم سے کم کیا جائے تو بہتر ہے اور اگر ہوسکے تو اس منحوس کرونا کے بارے میں بات ہی نہ کی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ ہم نے ان سے جان کی امان چاہتے ہوئے کہا جناب آپ کی بات تو سوفیصد درست ہے لیکن اب اس کا کیا علاج کہ ٹی وی کے کسی بھی چینل کو کھول کر دیکھو تو وہاں کرونا کرونا چل رہا ہوتا ہے، اگر سیل فون پر کسی کو کال کرو تو ساتھ ہی کرونا سے بچنے کی ہدایات نشر ہونا شروع ہوجاتی ہیں، اخبارات کرونا کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں، مریضوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، اموات کا سلسلہ بھی تواتر سے جاری ہے، ساتھ ہی ساتھ بحث مباحثے بھی چل رہے ہیں، اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جن کا کہنا ہے کہ کرونا ایک ٹوپی ڈرامہ ہے اب ایسی صورتحال میں بندہ کیا کرے؟ کسی بھی قوم کے مزاج اس کی سوچ اور صلاحیتوں کا اندازہ کسی بھی مصیبت کے وقت باآسانی لگایا جا سکتا ہے، آج کرونا کی وجہ سے ہمیں اپنا آپ جاننے کا موقع ملا ہے، ہم بحران میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں؟ سب کچھ طشت ازبام ہوگیا ہے، کسی بھی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی، ایک ہیجان کی سی کیفیت ہے، ٹیسٹ تو کئے جارہے ہیں لیکن ان پر اعتماد اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ وہ غلط رپورٹوں پر مبنی ہوتے ہیں، اب ایسی حالت میں عام آدمی کہاں جائے؟ ایک انتہائی خطرناک صورتحال یہ ہے کہ صرف کرونا تو نہیں ہے دوسرے بھی بہت سے امراض ہیں جن میں بے تحاشہ لوگ مبتلا ہیں ان کا علاج بھی ضروری ہے مگر افراتفری، منصوبہ بندی کے فقدان، دوسری سہولیات کی کمی اور خوف کی وجہ سے دوسرے امراض میں مبتلا مریضوں کی جان پر بنی ہوئی ہے، پشاور کے بڑے ہسپتالوں میں گردے کے مریضوں کے ڈائلاسس باقاعدگی سے کئے جاتے ہیں، یہ موت اور زندگی کا مسئلہ ہوتا ہے مریض کا وقت پر ڈائلاسس نہ کیا جائے تو اس کی موت واقع ہوسکتی ہے، اب اس وقت کرونا کی افراتفری اور مناسب منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے صورتحال یہ ہے کہ پشاور شہر کے سب سے بڑے ہسپتال میں ڈائلاسس کا سلسلہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے، ڈائلاسس کیلئے آنے والے مریضوں کی ایک مختصر سی فہرست ترتیب دی جاچکی ہے جس کے مطابق اپنی باری پر ان کے ڈائلاسس کئے جاتے ہیں لیکن مریض کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس کٹس ختم ہو چکی ہیں آپ مارکیٹ سے اپنے لئے کٹ لائیں، غریب مریض کٹ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا لیکن بہ امر مجبوری وہ مارکیٹ سے بارہ سو روپے کی دو نمبر کٹ خرید کر لاتا ہے، اچھی کٹ کی قیمت تقریباً پانچ ہزار روپے بنتی ہے اس کے علاوہ جو مریض ڈائلاسس کیلئے آتے ہیں انہیں واپس کردیا جاتا ہے، اب یہ مریض کہاں جائیں گے؟ نجی ہسپتال میں ڈائلاسس کروانے پر پانچ سے سات ہزار روپے لگتے ہیں اور یہ عام آدمی کے بس کی بات اس لئے بھی نہیں ہے کہ ہفتے میں دو تین دفعہ ڈالائسس کروانے پڑتے ہیں۔ یہ تو صرف مثال کے طور پر ایک بیماری کی صورتحال آپ کے سامنے پیش کی گئی ہے اسی طرح دوسرے بہت سے امراض میں مبتلا لوگ اس وقت جان کنی کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اب تک اسی افراتفری، منصوبہ بندی کے فقدان اور صحیح انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مریض فوت ہوچکے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اب تک دوسرے بہت سے امراض کی وجہ سے مرنے والے لوگوں کو کرونا کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے، اب لوگ اسی وجہ سے خوف کا شکار ہیں کہ اگر انہیں زکام یا کھانسی کی شکایت ہوتی ہے اور وہ ہسپتال کی طرف رجوع کرتے ہیں تو انہیں کرونا کے کھاتے میں ڈال دینے کا خدشہ ہوتا ہے، اب تک کئی ایسے کیسز سامنے آچکے ہیں کہ میت کو کرونا کا شکار سمجھتے ہوئے چار پانچ اہلکاروں نے دفنا دیا بعد میں جب میت کی ٹیسٹ رپورٹ آئی تو اس میں وہ ٹیسٹ منفی تھا، اس بیچارے کو کرونا تھا ہی نہیں لیکن اسے مردہ جانور کی طرح زمین میں گڑھا کھود کر دبا دیا گیا۔ ایک واقعے کے تو ہم خود چشم دید گواہ ہیں، پشاور میں ایک نوجوان کا ٹیسٹ مثبت آیا تو اسے گھر میں قرنطینہ کر دیا گیا، گھر کے باہر پہرا بٹھا دیا گیا، ملنے جلنے پر، کسی کے آنے جانے پر پابندی لگا دی گئی، اچھی بات ہے احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے اس قسم کی صورتحال میں یہی کچھ کیا جا سکتا ہے! اب اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ کرونا سے متاثر مریض کے والد صاحب دو دن پہلے فوت ہوگئے، آپ یقین کیجئے اہل خانہ نے صرف اس خوف سے کہ میت کو کرونا کے کھاتے میں ڈال کر گڑھا کھود کر اس میں ڈال دیا جائے گا، مرنے کی خبر پوشیدہ رکھی اور میت کو دوچار گھنٹوں میں چند رشتہ داروں کی معیت میں نماز جنازہ پڑھ کر اسلامی طریقے سے دفنا دیا! کم ازکم اس طرح نہیں ہونا چاہئے جب بڑے ہسپتالوں میں آئسولیشن وارڈز قائم کردی گئی ہیں اور وہاں گنجائش کے مطابق کرونا سے متاثرین مریض بھی موجود ہیں ان کا اچھا برا علاج بھی ہو رہا ہے تو پھر دوسرے مریضوں کا ان کی بیماری کے مطابق ہی علاج ہونا چاہئے! جب اس حوالے سے ڈاکٹروں سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ بیچارے بھی ضروری ساز وسامان اور سہولیات کی قلت کا رونا رو رہے ہیں اور وہ غلط بھی نہیں کہہ رہے، یقینا انہیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے، اب تک کئی ڈاکٹرز زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے تمام فنڈز اس مہلک وبا کیلئے وقف کردے اور حکومت کیساتھ ساتھ مخیرحضرات بھی آگے بڑھ کر اپنا حصہ ڈالیں طبی عملہ کیلئے سہولیات اور مریضوں کی جان کا تحفظ اس وقت سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہئے اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم کرے۔

مزید پڑھیں:  ملک چلے گا کیسے؟