ٹیکنو کریٹ حکومت ،پرانی بوتل نیا مشروب

ملک میں انتخابات سے راہ ِفرار کے کئی منصوبوں کی قیاس آرائیاں اور دعوے جاری ہیںانہی میں ایک ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا قیام ہے ۔ دنیا بھر سے جمع کئے گئے پاکستانی نژاد دانشور پروفیسر ڈاکٹر ز وکلا اور بینکرز کااقتدار اور ایک غیر سیاسی حکومت کا قیام۔یہ تصور نیا نہیں اس ملک میں وقفے وقفے سے ٹیکنوکریٹس کی حکومت،قومی حکومت نجانے اور کس کس نام کی حکومتوں کے شگوفے پھوٹتے چلے آرہے ہیں ۔نوے کی دہائی میں جو پیپلزپارٹی او رمسلم لیگ ن کی کشمکش سے عبارت تھی ہر سال دوسال بعد ایسے ہی تصورات کے غبارے ہوائوں میں اُڑتے نظر آتے تھے پھر اس کشمکش سے بھرپور دہائی کا اختتام جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے قیام پر ہوا ۔اس حکومت کا سب سے اہم حصہ موسمی پرندوں کی مانند بیرونی دنیا سے آنے والے ٹیکنو کریٹس تھے ۔ٹائی سوٹ پہنے بریف کیس تھامے اور منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولنے والے یہ ٹیکنو کریٹس خود کو پاکستان کے مریض معیشت کا مسیحا قرار دیتے تھے ۔انہی میں سے ایک ٹیکنو کریٹ شوکت عزیز تھے ۔جو سٹی بینک سے پاکستان کی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے پاکستان بہت اہتمام کے ساتھ بلائے گئے تھے ۔کئی برس تک وزیر خزانہ رہنے کے بعد شوکت عزیز نے لمبی چھلانگ لگا کر وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھال لی۔ملک میں نئی حکومت قائم ہوتے ہی شوکت عزیز نے اپنا بریف کیس تھاما اور واپس اسی دنیا میں لوٹ گئے جہاں سے ان کا ورود اور نزول ہوا تھا ۔ اس کے بعد شوکت عزیز ملک میں دوبارہ نہیں پائے گئے۔کتنے ہی سیلاب اور آفات آئیں مگر ٹینکوکریٹ وزیر اعظم نے مڑ کر اپنے ملک کی خبر نہ لی ۔اس کے ساتھ ہی تمام ٹیکنو کریٹ ایک ایک کرکے شجر خالی کرکے دو ردیس سدھاتے چلے گئے ۔ملک جس معاشی زوال کا شکار ہے اس میں ٹیکنو کریٹس کا گہرا دخل ہے جو اپنے اصل ”باس ” آئی ایم ایف کی خواہشات کے مطابق معاشی پالیسیاں ترتیب دیتے رہے اور یہ ٹیکنو کریٹس کسی نے کسی بھیس میں اور کسی نہ کسی نام سے ہر حکومت میں شامل رہے ہیں۔اب ایک بارپھر انہی ٹیکنو کریٹس سے مسیحائی کی توقع پر نیا ڈول ڈالا جا رہا ہے ۔یہ سب کچھ ان انتخابات سے بچنے اور دور بھاگنے کے لئے کیا جا رہا ہے جو صرف آٹھ نو ماہ قبل حد درجہ ناگزیر اور ملک کے تمام مسائل کا حل اور تمام عارضوں کا تیر بہدف علاج تھے ۔جن انتخابات کے انعقاد میں تاخیر پر مرنے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں ۔اب ایسا کیا ہو کہ کل کاخوب آج ناخوب ٹھہرا۔اب فرق یہ ہے کہ اس وقت عمران خان کی مقبولیت کی پتنگ سے سب اونچی اُڑ رہی ہے ۔عوام نے حکومت کی برطرفی کے دن سے ہی عمران خان کا بیانیہ قبول کر لیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی مقبولیت بڑھتی چلی جارہی ہے ۔رائے عامہ کے تمام جائزوں میں اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کی مقبولیت اس قدر ہے کہ دوتہائی اورایک چوتھائی نشستوں تک بات پہنچ جاتی ہے ۔موجودہ حکمران ڈلیور کرنے کے وعدوں اور مہنگائی مارچز کے راستوں سے ایوان اقتدار میں پہنچے تھے مگر ان کی ہر تدبیر اُلٹی ہوگئی اور ملک کا معاشی بحران بڑھتا چلا گیا ۔اس کیفیت میں حکمرانوں کو یہ خوف ہے کہ انتخابات آج ہوں یا کل عمران خان ہی کامیاب ہوں گے ۔عمران خان کی کامیابی کو حکومت نے ایک ایسا خطرناک موڑ سمجھ لیا ہے کہ جس کو نظرانداز کرنے کے لئے کوئی بائی پاس تلاش کی جانی چاہئے ۔یہ بائی پاس ٹیکنو کریٹس کی حکومت بھی ہے ۔اس کی ضمانت ہے کہ دوسال بعد جب سسٹم کی گاڑی اس موڑ کر نظر انداز کرکے بائی پاس کے اختتام پر پہنچے گی تو آگے پھر وہی خطرناک موڑ نہیں ہوگا ۔عمران خان ایک حقیقت ہیں اور اس حقیقت کو مصنوعی اقدامات اور فرضی کہانیوں اور آڈیو وڈیوز سے ختم نہیں کیا جا سکتا اس حقیقت کو صرف عمرا ن خان ہی ختم کر سکتے ہیں اور وہ بھی اپنی پالیسیوں سے ۔جنرل ضیاء الحق نے گیارہ سال پیپلزپارٹی کو جڑ سے اکھاڑنے میں لگا دئیے ۔جب مارشل لاء ختم ہوا تو سسٹم کا واسطہ پھر اسی پیپلزپارٹی سے ہوا جسے جڑ سے ختم کرنے کی کوششیں گیارہ برس ہوتی رہیں ۔چار وناچار پھانسی کی سزا پانے والے ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو ایوان وزیر اعظم میں گارڈ آف آنر پیش کرکے راہ دینا پڑی ۔جن نعروں کو بلند کرنے پر گلی محلوں میں لوگوں کو گرفتار کیا جاتاتھا وہ نعرہ قومی اسمبلی گیلریوں اور ایوانوں میں بلند ہو رہے تھے اور سسٹم سرجھائے انہیں سننے پر مجبور تھا ۔بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کے قیام کو روکنے کے لئے دو سال تک عدلیہ کی حکومت قائم کی گئی دوسال بعد جب وہاں کے سسٹم نے آخری موڑ مڑا تو آگے جو حقیقت موجود تھی ا س کا نام حسینہ واجد تھا ۔ سوال یہ ہے کہ جس حقیقت کا وجود ماہ وسال کی کوچہ نوردی کے بعد تسلیم کرنا پڑے اسے وقت پر تسلیم کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔آج عمران خان کی حقیقت سے دامن بچانے نظریں چرانے پیچھا چھڑانے کے لئے انتخابات سے ہی فرار اختیار کیا جا رہا ہے کیا عجب دو سال بعد اسی حقیقت سے سامنا ہوجائے ۔ایسے میں ایک ریٹائرڈ جنرل امجدشعیب کا یہ بیان معنی خیز ہے کہ آئین کے تحت نوے دن میں انتخاب کرانا لازمی ہے جو لوگ لمبے عرصے کی حکومت چاہتے ہیں ان سب پر آرٹیکل چھ لگے گا۔گویا کہ اس مرحلے پر انتخابات کو ٹالنے کی یہ صورت ملک میں مسائل کا ایک پنڈورا باکس کھولنے کے مترادف ہے ۔اس لئے بھلا اسی میں ہے کہ حقیقت کا سامنا اوراعتراف کیا جائے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنا مسائل کوٹالنے کی روش ہے اور اس انداز فکر وعمل سے مسائل ختم ہونے کی بجائے گھمبیر ہی ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے