کیا بحران کا حل ٹیکنو کریٹ حکومت ہے؟

اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک کا جو انجر پنجر ہل گیا ہے اس کی ٹھوکا ٹھاکی کیلئے ٹیکنوکریٹس آئیں گے۔ اِس افواہ میں کتنی صداقت ہے؟ اِس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اِس وقت جو حالات ہیں انہیں دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ہم ایک ایسی صورتِ حال کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ٹیکنو کریٹ حکومت کے سب سے بڑے راوی عمران خان ہیں تاہم جس طرح موجودہ حکومت حالات کو سنبھالنے میں بے بس نظر آ رہی ہے اور آئے روز وزیرخزانہ کو ٹی وی پر آکر یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ ملک دیوالیہ نہیں ہو رہا اور خود وزیراعظم بھی یہ کہتے ہیںکہ صورتِ حال بہت مشکل ہے، اس میں اب آگے بڑھنے کا راستہ کیا رہ گیا ہے؟ حکومتی وزراء نے ٹیکنوکریٹ حکومت کے خیال کو رد کر دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ایسا ہوا تو یہ شہبازشریف کے ساتھ زیادتی ہو گی مگر یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ ملک کو اِس حال میں زیادہ عرصے تک چلایا نہیں جا سکتا۔ ایک طرف کڑے فیصلے درکار ہیں تو دوسری طرف ٹیکنوکریٹ حکومت یا نئے انتخابات کا راستہ ہے۔ ایسے میں آگے بڑھنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ آگے صرف اسی صورت میں بڑھا جا سکتا ہے جب ملک میں سیاسی استحکام آئے مگر سیاسی استحکام کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آ رہے کیونکہ عمران خان ایسے سیٹ اپ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور ان کا ہر بیان، ہر لمحہ اِسے کمزور کرنے پر صرف ہو رہا ہے۔
ہمارے ایک کرم فرما ٹیکنوکریٹ حکومت کو ٹھیکے پر دی گئی حکومت قرار دیتے ہیں، جب کام بگڑ جائے اور حالات قابو میں نہ آ رہے ہوں تو ٹھیکے پر دینے کا خیال ذہن میں آتا ہے۔ ابھی تک سوائے عمران خان کے کسی سنجیدہ طبقے کی طرف سے ٹیکنوکریٹ حکومت کی تجویز پیش نہیں کی گئی۔ عمران خان نے بھی تجویز تو پیش نہیں کی البتہ انکشاف کیا ہے کہ ٹیکنوکریٹ حکومت لانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ حکومت کے پیچھے بیٹھی ہوئی طاقتیں انتخابات نہیں کرانا چاہتیں۔ عمران خان کا اول و آخر مطالبہ چونکہ یہی ہے کہ فوری انتخابات کرائے جائیں اِس لئے انہیں ہر روز یہ شک پڑ جاتا ہے کہ انتخابات نہ کرانے کیلئے کوئی نہ کوئی منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک سنجیدہ سوال یہ ہے کہ ملک کو موجودہ بحرانی صورتِ حال سے نکالنے کیلئے فوری انتخابات ضروری ہیں یا ٹیکنوکریٹ حکومت بنا کر اسے ایک دو سال دیئے جائیں کہ وہ ملکی معیشت اور حالات کو بہتر بنا کر نئے انتخابات کیلئے سازگار ماحول پیدا کرے۔
ایسے حالات میں تحریک انصاف کی رضا مندی کے بعد ٹیکنوکریٹ حکومت بنائی گئی اور اسے غیر معینہ مدت تک کام کرنے کو کہا گیا تو کیا ملک میں سیاسی استحکام آجائے گا؟ کیا یہی صورتِ حال برقرار نہیں رہے گی بلکہ الٹا اسمبلیوں کی عدم موجودگی کے باعث ٹیکنوکریٹ حکومت پر دباؤ بڑھ نہیں جائے گا؟ جہاں تک پی ڈی ایم کی جماعتوں کا تعلق ہے ان کے لئے ٹیکنوکریٹ حکومت بننے کی صورت میں ایک ریلیف موجود ہے۔ موجودہ اقتصادی حالات میں جب بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی اور اگلے آٹھ ماہ بھی اگر حکومت کرنے کا موقع مل جائے تو اتحادی سیٹ اپ کوئی بڑا معرکہ سر نہیں کر سکتا تو اِس صورتِ حال میں انتخابات کا غیر معینہ عرصے کیلئے التواایک مناسب راستہ ہے جو نگران حکومت کی وجہ سے نہیں مل سکتا البتہ ٹیکنوکریٹ حکومت کی صورت میں ضرور مل سکتا ہے جس کے لئے سپریم کورٹ سے اجازت لی جا سکتی ہے۔ عمران خان کے پچھلے کچھ عرصے میں دیئے گئے انٹرویوز اور بیانات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ انتخابات کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت چاہتے ہیں۔ باوجود اِس کے کہ وہ اِس وقت سیاست سے خاصی دوری پر نظر آ رہی ہے۔ اب وہ کچھ مایوس نظر آ رہے ہیں اور انہوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ حکومت کے پیچھے بیٹھی ہوئی قوتیں انتخابات نہیں چاہتیں اِس لئے ٹیکنوکریٹ حکومت کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔
بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اِس وقت جتنی سیاسی پولرائزیشن ہے کیا اِس کی موجودگی میں انتخابات ہوئے تو ان کے نتائج کو تسلیم کر لیا جائے گا؟ ہمارے ہاں تو ماضی میں یہ روایت رہی ہے کہ انتخابی نتائج کو پہلے روز سے ہی قبول نہ کرکے تحریک شروع کر دی جاتی ہے۔ عمران خان اِس وقت اپنی مقبولیت کے مکمل زعم میں مبتلا ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہو جائیں گے اگر ان کے اندازے غلط ثابت ہوئے تو کیا وہ نتائج کو تسلیم کریں گے یا پھر نئی تحریک شروع کر دیں گے۔ یہی سب کچھ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی ہار کو تسلیم کریں گی۔ ٹیکنوکریٹ حکومت بن بھی جائے تو چار چھ مہینے کے لئے ایک مصنوعی استحکام آ جائے گا تاہم اصل سیاسی استحکام صرف اسی صورت میں آ سکتا ہے جب تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں، شفاف انتخابات کے لئے اصلاحات کریں اگر ناگزیر حالات کی وجہ سے عبوری دور کو لانا بھی ہے تو ٹیکنوکریٹ حکومت بنانے کی بجائے قومی حکومت بنائیں جس میں تمام سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف کی نمائندگی ہو۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے