پشاور مسجد میں خودکش دھماکہ

پشاور پھر سے دہشت گردوں کے محاصرے میں

پشاور(عزیز احمد)دہشت گردی کی عودکرآنے والی لہر میں تازہ واقعہ اور قبل ازیں بھی ٹارگٹ کلنگ کی صورت میں پولیس ہی نشانے پر تھی ۔پشاور پولیس لائن جیسے محفوظ اور مصروف علاقے کی مسجد میں خودکش دھماکہ پشاور پولیس پر بڑا حملہ ہے چونکہ مسجد کے اندر عین وقت نماز خودکش دھماکہ ہوا ہے اور مسجد کے ایک حصے کی چھت مہندم ہو گئی ہے ایسے میں اس کی شدت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں یہ ایک ایسے ابتلاء کاوقت ہے کہ اس موقع پر یہ سوال بھی مناسب نہیں لگتا کہ آخر پولیس نے اس قدر حساس اور مرکزی علاقے کی حفاظت سے اس قدر کو تاہی کیسے برتی کہ خود کش حملہ آور مسجد پہنچا اور دھماکہ کرنے میں کامیاب ہوا۔
بہرحال صورتحال جو بھی تھی پولیس واقعے کی روک تھام میں ناکام رہی قبل ازیں بھی ہم نے انہی کالموں میں اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ اس وقت سب سے زیادہ خطرہ خود پولیس کو ہے اور پولیس کو سب سے زیادہ تحفظ کی ضرورت ہے۔ خود کش حملہ آور کااس مقام تک پہنچنے سے صرف پولیس کی کارکردگی اور حفاظتی اقدامات بارے غفلت کا سوال ہی نہیں اٹھتا بلکہ حساس اداروں اور پیشگی اطلاعات کے نظام پر بھی یہ بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ دم تحریر اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔ امکان ہے کالعدم تحریک طالبان یا داعش ہی اس واقعے کی ذمہ دار ہو سکتی ہیں۔ ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک اس حوالے سے جو تفصیلات سامنے آئیں اس کی روشنی میں صورتحال واضح ہو اور اس پر زیادہ ا عتماد کے ساتھ لکھا جا سکے ۔ ایک ایسے شہر میں جہاں ارد گرد حساس اداروں کے دفاتر ہوں وہاں پولیس کے گھر جا کر ان کو نشانہ بنانا جہاں حملہ آورو ں کی بڑی منصوبہ بندی کا مظہر ہے وہاں اس سے پولیس کی غفلت بھی ظاہر ہوتی ہے دہشت گرد عموماً ایسے ہی ناقابل یقین مقامات پر پہنچ کر دھماکہ کرکے خوف کی ایک تاریک فضا پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جس کی کامیابی کے بعد سکیورٹی کے اداروں اور پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں اور عوام خود کو فطری طور پر غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں
اس طرح کے دھماکوں کے جو نفسیاتی اثرات ہوتے ہیں دہشت گردوں کے منصوبہ سازوں کے پیش نظر وہ زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ شہید اور زخمی ہونے والوں کا غم تو تازہ رہتا ہی ہے۔شہر،صوبے اور پورے ملک کی فضا سوگوار اور معاشرہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتا ہے۔ اس طرح کے واقعات کے اثرات کافی عرصے تک محسوس ہوتے ہیں اور اس اثناء میں دہشت گرد کوئی نئی منصوبہ بندی اور واردات کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں خود کش دھماکہ حساس اور محفوظ علاقے میں ہونے والا پہلا واقعہ نہیں قبل ازیں گزشتہ لہر کے دوران راولپنڈی کے حساس ترین علاقے کی مسجد میںخود کش دھماکہ ہوچکا ہے۔
خود کش حملہ آور کے محولہ علاقے تک رسائی کا ہنوز یقین نہیں آتا۔بہرحال وہ تو عہد رفتہ کی بات تھی تازہ واقعہ اس حوالے سے زیادہ حساس اور حیران کن ہے کہ دہشت گردی کی گزشتہ اور بڑی لہر کے دوران تھانوں اور دیگر عمارتوں اور مقامات پر تو حملے ہوتے رہے ہیں حال ہی میں بھی پولیس تھانوں اور افسران کو نشانہ بنایا جا چکا ۔ بنوں جیل کا سنگین واقعہ بھی ناقابل رسائی علاقے میں کارروائی تھی اور اس مرتبہ ایک ہی دن صوابی میں دہشت گردوں سے پولیس کا مقابلہ ہوا اور یہاں پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد کو نشانہ بنایا گیا ان دونوں واقعات میں ممکنہ مماثلت دہشت گردوں کی یہ منصوبہ بندی بھی ہو سکتی ہے کہ پولیس حکام کی توجہ صوابی کی طرف مبذول کرکے یہاں پشاور میں بڑی کارروائی کی جائے۔
بہرحال یہ امکانات کی بات ہے صوبے میں دہشت گردی کی عود کر آئی ہوئی اس صورتحال سے بڑے خطرے کی نشاندہی ہوتی ہے ایسے میں یہ قرار دینا کہ ایک مرتبہ پھر صوبہ غیرمحفوظ اور دہشت گردی کی زد میں آگیا ہے خلاف حقیقت نہ ہوگا۔ پولیس کو خود اپنا دفاع اور تحفظ یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کی سرکوبی اور صفایا کے دعوے کرنے اورآخر ہم کتنی بار اس طرح کے سانحے کو بڑا سانحہ قرار دیتے رہیں گے اور یہ سلسلہ کب اور کہاں جاکے رکے گا۔ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ پولیس کو فوری طور پر ایف سی کی کمک دی جائے ۔ مضافات کو کلیئرکرنے کا عمل بلاتاخیر شروع کیا جائے اور پولیس سب سے پہلے اپنے تحفظ اور دفاع پر توجہ دے اور اس کے ساتھ ساتھ شہریوں اور شہری تنصیبات اور عوامی مقامات کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

مزید پڑھیں:  پشاور، کوالٹی میں فرق پر بخار اور درد کی دوا پر پابندی عائد