tanveer ahmad 9

اپنے گریباں میں جھانکنے کی ضرورت

موسم خوشگوار ہے اس لئے دن بھر پیاس محسوس نہیں ہوتی، روزے بڑے آرام سے گزر رہے ہیں، ویسے لطف تو گرمیوں کے رمضان المبارک کا ہوتا ہے۔ افطار کے وقت طرح طرح کے ٹھنڈے مشروبات سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے، وہ روزہ ہی کیا جس میں پیاس نہ لگے! لیکن وقت وقت کی بات ہے ہم گرمیوں کے روزوں کو اب بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں، ہم نے تو گرمی کے وہ روزے نہیں دیکھے لیکن ان کی باتیں اپنے بزرگوں سے سن رکھی ہیں۔ ہمارے والد صاحب مرحوم ومغفور کہتے تھے جو سہولتیں آج میسر ہیں وہ ہمارے بچپن میں کہاں تھیں۔ پہلے لوگ ٹھنڈے پانی کیلئے ترستے تھے، پشاور شہر کے مختلف محلوں میں ٹھنڈے پانی کے کنویں ہوا کرتے تھے، افطار سے پہلے لوگوں کی ایک کثیر تعداد ان کنوؤں پر پانی بھرنے اکھٹی ہوجاتی تھی جن میں بچے، بوڑھے، جوان، خواتین سبھی شامل ہوتے تھے، سب اپنے اپنے برتن لئے ایک قطار بنا لیا کرتے تھے۔ کنویں سے پانی نکالنے کیلئے چرخی اور بوقے کا انتظام ہوتا تھا، چرخی کیساتھ ایک لمبی سی رسی لگی ہوتی تھی جس کے دوسرے سرے پر ربڑ کا بوقہ لگا ہوتا تھا، بوقے کو کنویں میں گراتے تو اس میں پانی بھر جاتا، پھر محلے کا ایک جوان چرخی گھماتا تو رسی چرخی کیساتھ لپٹتی اور بوقہ اوپر آجاتا پھر اس میں موجود پانی کسی کے برتن میں انڈیل دیا جاتا، علاقے کے نوجوان بڑے جوش وخروش کیساتھ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کیلئے پانی نکالتے۔ ہر نوجوان دس بارہ بوقے ضرور نکالتا، پھر آخر میں وہ اپنا برتن بھر کر چلا جاتا تو دوسرا نوجوان اس کی جگہ سنبھال لیتا، یہ سلسلہ افطار تک چلتا رہتا! پشاور شہر میں برف کی چند گنی چنی دکانیں تھیں، ایک دکان قصہ خوانی، ایک گھنٹہ گھر اور ایک نمکمنڈی میں تھی، ان کے علاوہ بھی دوچار دکانیں مختلف بازاروں میں تھیں جو لوگ برف خریدنے کی استطاعت رکھتے ان کا ان دکانوں پر ہجوم ہوتا۔ رمضان المبارک میں کسی دکان سے برف خریدنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، اکثر لوگ مغرب کی اذان سے بہت پہلے برف خرید کر گھر لے آتے اس برف کے ڈلے کو بڑی احتیاط کیساتھ کسی بوری میں لپیٹ دیا جاتا تاکہ پگھلنے نہ پائے اور افطاری کے شربت کیلئے کام میں لائی جاسکے۔ مسائل زیادہ تھے آج کی طرح سہولتیں نہیں تھیں لیکن بھائی چارے کی فضا قائم تھی، لوگ بڑی خوشی سے آگے بڑھ کر ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹ لیا کرتے تھے! آج ہم سب کو کرونا وبا کی وجہ سے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ہم آپ سے1947 میں پشاور میں پھوٹنے والی ایک وبا کا ذکر کرتے ہیں، پاکستان نیا نیا عالم وجود میں آیا تھا، شدید گرمی کا موسم تھا اور اوپر سے رمضان المبارک کا مہینہ تھا کہ اچانک ایک ایسی وبا پھوٹ پڑی کہ لوگ گرمی کی شدت سے راہ چلتے گر پڑتے اور ان کی موت واقع ہوجاتی۔ پشاور کا کوئی محلہ ایسا نہیں تھا جہاں سے دوچار جنازے نہ اُٹھے ہوں، لوگ ایک جنازہ دفنا کر آتے تو دوسرا جنازہ تیار ہوتا۔ پشاور کے مشہور محلے آسیہ میں ایک حکیم صاحب کا مطب تھا جو روزہ دار گرمی کی شدت سے بے ہوش ہو کرگرتا لوگ اسے چارپائی پر ڈال کر حکیم صاحب کے پاس لے جاتے، انہوں نے ایک بڑے سے مٹی کے مٹکے میں ایک خاص قسم کا شربت بنا کر رکھا ہوا تھا وہ مریض کو پلا دیا جاتا تو مریض کی حالت سدھر جاتی۔ حکیم صاحب وہ شربت لوگوں کو مفت پلاتے تھے اسی لئے اللہ پاک نے ان کے شربت میں شفا ڈال دی تھی جو پیتا صحت یاب ہوجاتا! سادہ لوگ تھے اللہ کریم سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے تھے آج کی طرح یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم نے کرونا کیساتھ لڑنا ہے وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے تھے، وبا کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش سمجھتے تھے پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اچانک ایک رات بڑے زور کی آندھی چلی ایسی شدت کی آندھی تھی کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ آندھی پورے پشاور کو اُلٹ کر رکھ دے گی۔ کہتے ہیں اس آندھی میں عجیب وغریب قسم کی آوازیں سنائی دیتی تھیں جب آندھی رکی تو گرمی کا زور ٹوٹ چکا تھا اس کیساتھ ہی لوگوں کے مرنے کا سلسلہ ختم ہوگیا اور پشاور کے لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ آج حکیم صاحب بھی نہیں ہیں اور ایک دن ہم سب نے بھی رخصت ہونا ہے، آج ہم جن کیلئے دنیا جہاں کی دولت اکٹھی کرتے ہیں وہ آخر میں ہمارے مرنے کی دعائیں مانگتے ہیں، آج ہم سب کرونا وبا کی وجہ سے پریشان ہیں، اس وبا نے آخر ایک دن رخصت ہونا ہے، یہ لاک ڈاؤن بھی نہیں رہے گا اور زندگی کی رونق پھر سے واپس لوٹ آئے گی مگر ایک بات بہت پریشان کرتی ہے کہ ہم کب سدھریں گے؟ کیا ہمارے ذخیرہ اندوزوں نے وبا کے ان دنوں میں ذخیرہ اندوزی چھوڑ دی ہے؟ کیا انہوں نے خودساختہ مہنگائی کا وطیرہ ترک کر دیا ہے؟ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو عید کی خریداری کا نہیں سوچتے اور اپنے غریب بہن بھائیوں، سفید پوش پڑوسیوں کی مدد کرتے ہیں؟ کیا اس وبا نے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کا موقع دیا ہے؟ کیا ہم اپنا محاسبہ کرسکے ہیں؟ ہمارے پیارے نبی کریمۖ کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے: سب سے زیادہ عقلمند وہی ہے جو فکر آخرت رکھتا ہے!

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟