میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے انتظامات

ثانوی واعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈز کی انٹربورڈ کمیٹی کے اجلاس میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات یکم جون تا پندرہ جولائی منعقد کرنے کا فیصلہ مناسب ہے، اس ضمن میں طریقہ کار کا بھی فیصلہ کر کے اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کمی آئی ہے یا نہیں اس سے قطع نظر مناسب حفاظتی اقدامات کیساتھ امتحانات کے انعقاد میں مزید تاخیر کی اب گنجائش نہیں۔ دنیا کے بعض کورونا زدہ ممالک میں بھی اب تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں، بعض ممالک میں کھل چکے ہیں وہاں پر سکول کے بچوں کو جن حفاظتی اقدامات سے گزار کر سکول میں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے اس طرح کا طریقہ کار اختیار کرنا بہت مشکل نہیں، امتحانی مراکز میں سینٹائزر یا پھر داخلی دروازے پر ہاتھ دھونے اور ٹشو پیپر رکھنے کے انتظامات مشکل نہیں اور اگر حکومت یا متعلقہ نجی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کیلئے بالفرض محال ایسا ممکن نہ ہو تو ہر طالب علم کو سینٹائزر اور ٹشو پیپر ساتھ لانے کی ہدایت کی جا سکتی ہے، البتہ امتحانی ہال کی عمارت میں داخلے کے وقت صدر دروازے پر احتیاطی تدابیر کو یقینی بنانے کیلئے عملہ تعینات کرنا ہوگا۔ ماسک کی سختی سے پابندی اور مناسب فاصلہ رکھ کر امتحانی حال میں داخل ہونے اور مناسب فاصلہ رکھ کر پرچہ حل کرنے کو یقینی بنانے کے انتظامات زیادہ مشکل نہیں۔ اس امر کو یقینی بنانے کیلئے سپرنٹنڈنٹ کی ذمہ داری قرار دی جائے جبکہ متعلقہ سکول کے عملے کیساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے نمائندوں کی تعیناتی بھی ضروری ہے۔ کسی طالب علم کو صرف درجہ حرارت زیادہ ہونے کی بناء پر امتحان سے روکنا بڑی قیمت ہوگی، البتہ امتحانی عملے کا درجہ حرارت معلوم کر کے مناسب قدم اُٹھانے کی گنجائش ہے۔ مناسب ہوگا کہ تعلیمی بورڈ امتحانات کی حتمی تاریخ کا تعین کر کے والدین سے اپیل کریں کہ وہ امتحان شروع ہونے سے چودہ دن قبل ہر صورت میں امتحان دینے والے بچوں کو قرنطینہ میں ڈال دیں، امتحانات کے دنوں میں ویسے بھی تیاری کیلئے طالب علم گھر ہی بیٹھ جاتے ہیں۔ جہاں دیگر کاروبار زندگی کھل گئے ہیں اور لوگ احتیاط کے تقاضوں کی سرعام خلاف ورزی کیساتھ ہجوم بناتے ہوئے ذرا نہیں ہچکچاتے وہاں پر ممکنہ حفاظتی اقدامات اور احتیاطی تدابیر کیساتھ امتحانات کا انعقاد کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
رش اور قطار، لاینحل مسئلہ کیوں؟
صوبائی دارالحکومت سمیت صوبہ بھر میں کورونا کے پھیلاؤ اور اموات میں مسلسل اضافے کے باوجود شہری احتیاط کا دامن تھامنے کو تیار نہیں تو دوسری جانب ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ نے بھی اب ان حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور عوام کو ان کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے جو مناسب امر نہیں۔ بازاروں میں رش اگر کنٹرول کرنے میں مشکلات ہیں تو بنکوں کے باہر لگے قطاروں اور نادرا کے دفاتر کے باہر ہجوم ہی کو مناسب فاصلہ رکھ کر کھڑے ہونے کا پابند بنانا مشکل نہیں، بنکوں کے باہر لمبی لمبی قطاروں کی آئے روز چھپنے والی تصاویر کا سٹیٹ بنک کی جانب سے نوٹس نہ لینا سٹیٹ بنک کے قوانین کے نفاذ یقینی بنانے کی شہرت کے برعکس ہے۔ انتظامیہ اور متعلقہ دفاتر جہاں بھی عوام کی بڑی تعداد میں آنے کا امکان ہو اضافی اقدامات کے ذریعے رش میں کمی لائی جائے، ان کے معاملات جلد نمٹانے کیلئے اضافی عملہ تعینات کیا جائے، نیز ان کیلئے سایہ کا بندوبست کرنے کی ذمہ داری کا احساس کیا جائے، رمضان المبارک اور گرمی کے موسم میں عوام کا یوں قطاروں میں لگ کر دقت اُٹھانا کسی شوق کے نہیں مجبوری ہی کے سبب ہے۔ ماسک کی پابندی کو یقینی بنانے کیلئے بغیر ماسک پہنے افراد کو واپس بھجوایا جائے، ساتھ ہی ساتھ متعلقہ محکمہ اور ادارہ اپنے عملے کو محفوظ بنانے کیلئے ان کو ضروری سامان اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا ماحول بنائے۔
سگ گزیدگی ویکسین کی فراہمی میں تاخیر نہ کی جائے
سگ گزیدہ کے تکلیف دہ اور خطرناک بیماری کے علاج کے ویکسین کی سرکاری ہسپتالوں میں عدم موجودگی کے باعث ہر سال درجنوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، ہسپتالوں میں ویکسین کی عدم موجودگی کے باعث مہنگی ادویات خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے والے مریضوں کی مشکلات اور ان کی زندگیوں کو خطرات خاص طور پر توجہ طلب امر ہے۔ صوبے کے بڑے ہپستالوں تک میں یہ ویکسین نایاب ہوتی ہے دوردراز کے مراکز علاج اور شفاخانوں میں تو ان کی موجودگی کی توقع ہی نہیں، بہرحال اس ضمن میں سپلائی شروع کرنے کا جو عندیہ دیا گیا ہے اس میں نہ صرف تاخیر کی گنجائش نہیں بلکہ ہر ضلعی ہیلتھ آفیسر کو اس امر کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے ضلع میں اس ویکسین کی موجودگی کو یقینی بنائے، غفلت سامنے آنے پر ان کو ذمہ دار ٹھہرا کر کارروائی کی جائے۔
حیات آباد میں منشیات فروشی
مجلس علماء حیات آباد کی جانب سے علاقے میں جابجا ہیروئن، آئس اور دیگر نشے کے عادی افراد کی منشیات فروشی کے حوالے سے انتظامیہ سے نوٹس لینے کا جو مطالبہ کیا ہے اگر انتظامیہ متحرک ہوتی تو اس کی نوبت ہی نہ آتی۔ حیات آباد میں مرکزی خشک ندی میں نشے کے عادی افراد کے ٹھکانے تو عرصے سے موجود ہیں لیکن اب نشے میں دھت افراد پارکوں اور بس سٹاپس پر بھی پڑے ہوتے ہیں لیکن پولیس ان کیخلاف کارروائی ضروری سمجھتی ہے اور نہ ہی ان کو منشیات پہنچانے والوں کا راستہ روکتی ہے۔ حیات آباد کی چاردیواری میں جگہ جگہ توڑ پھوڑ کرکے اس قسم کے عناصر کی آزادانہ آمد ورفت کی روک تھام اور غیرقانونی راستوں کو مکمل طور پر بند کرنے کی ضرورت ہے۔ علاقہ پولیس کی غفلت لاپرواہی یا پھر ممکنہ ملی بھگت کا بھی نوٹس لیا جانا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  نتھیاگلی میں سیاحوں کیلئے ایڈونچر تھیم پارک کا قیام احسن اقدام ہے، زاہد چن زیب