حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے

گزشتہ روز قائد اعظم یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا تو جاتے ہوئے عین یونیورسٹی کے قریب ناکے پر پولیس اہلکاروں نے روکا اور ہدایت کی کہ یونیورسٹی میں جانے کیلئے متبادل راستہ استعمال کریں۔استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ یونیورسٹی کے مین گیٹ کے عقب میں واقع چینی سفارتخانے کے اہلکاروں نے سختی سے تاکید کی ہے کہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر کسی آ نے جانے والے کو سفارتخانے کے سامنے سے گزرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یوں دوچار گام جبکہ لب بام رہ گیا کے مصداق صرف ایک منٹ کے ڈرایو پر واقع یونیورسٹی کے مین گیٹ تک کھیتوں میں کچے راستے پر گاڑی میں اٹھارہ سے بیس منٹ میں ہم اپنے منزل پر پہنچ گئے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ مشقت یونیورسٹی اوراسکے مشرق کی طرف واقع بری امام کی درگاہ اور گرد ونواح میں آباد آنے جانے والے ان سینکڑوں طلبہ، زائرین اور عوام کو روز اٹھانی پڑتی ہے لیکن چینی آقاوں کے اس روئے کے خلاف کسی کو بولنے کی ہمت نہیں ہے۔یہی حال کم و بیش ہر بڑے شہر کا ہے جس میں امریکی سفارتخانوں اور قونصل خانوں کی وجہ سے اپنے ہی ملک میں لگے چیک پوسٹوں اور ناکوں پر عوام کو ذلیل و خوار کیا جاتا ہے ۔ ایک لمحے کے لئے سوچ لیجئے کیا ہم امریکہ، چین، انگلستان یا کسی دوسرے ملک میں اس ملک کے باشندوں کے خلاف ایسے کسی اقدام کا سوچ بھی سکتے ہیں۔ اس میں قصور ان لوگوں کا نہیں ہے بلکہ خود ہمارا اپنا ہے کہ ہم نے اپنی خودی کو بیچ ڈالا ہے، چند ڈالروں کے عوض، اپنے قومی غرور کا سودا کیا ہے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر، اپنے قومی انا کا خون کیا ہے اپنے آقاوں سے اقتدار کی بھیک مانگ کر۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ پاکستانی قوم کو ماں کی گالی بھی شان سے دیتے ہیں اور ہم ایک مہذب قوم کی طرح انکی گالی کو بھی خان کی گالی قراردے کرخوش ہوتے ہیں۔ہم نے ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کو بتا تودیا کہ ہم ایٹمی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں لیکن اس ایٹمی قوت کے حامل ملک کے وزیراعظم جب اپنا کاسہ لے کر انہی ممالک میں بھیک مانگنے جاتے ہیں تو ہمارا قومی غرور اور وقار خاک میں مل جاتا ہے۔بین الاقوامی برادری میں ہماری حالت یہ ہے کہ ہمیں کوئی ملک قرض دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ہمارے حکمران امریکی آقاوں کے ایک ٹیلیفون کال کے انتظار میں ٹیلی فون سیٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہوتے ہیں۔کوئی طالع آزما اگر امریکی روئے کے خلاف بات کرنے کا مشورہ دیدیں تو کہا جاتا ہے کہ اگر امریکی مفادات کے خلاف قدم اٹھائیں گے تو وہ ہمیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دے گا۔ایک ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف کی منتیں کی جارہی ہیں۔سعودی عرب، متحدہ امارات اور قطر جیسے ممالک کے امرا اور بادشاہوں کے سامنے اپنے قومی غرور کو بیچا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے سیاسی رہنماوں کی غیرت جوش میں نہیں آتی۔ لندن میں ایک ہزار کروڑ کے گھر میں رہنے والے نواز شریف اگراپنا ایک ہی گھر پاکستانی عوام کی خاطر عطیہ کردیں تویہ پاکستانی عوام کے ان احسانوں کا ایک حقیر سا بدلہ ہوگا جو وہ اس پر پچھلے تقریبا چار دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں۔کیا سابق صدر صف علی زارداری میں اتنا حوصلہ ہے کہ وہ سوئس بینکوں میں پڑا سرمایہ واپس لاکراس مشکل گھڑی میں اپنے ان ہم وطنوں کی مدد کریں جنہوں نے انہیں اپنے سر آنکھوں پر اٹھا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچادیا۔کیا عمران خان میں اتنی جرات ہے کہ وہ اپنے سرمایے اور جائئدادوں کا ایک خاص حصہ پاکستانی عوام کے نام کرکے اپنے ساتھ عوام کی محبتوں کی ایک چھوٹی سی قیمت اداکرسکیں۔نہیں بلکہ ہمارے یہی مسیحا ہمارا خون چوسنے کے لئے روز نت نئے حربے اور طریقے استعمال کررہے ہیں۔یہیں سے رقوم اٹھا اٹھاکر یورپ، امریکہ اور متحدہ عرب امارات میں اپنے کاروبار چمکائے جارہے ہیں۔حال ہی میں ایک سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی کی طرف سے اپنی ہی حکومت پر مفت آٹے کی تقسیم میں بیس ارب روپے کی خوردبرد کے الزام کا جواب کون دے گا؟ اگر انہی بیس ارب روپوں کے ساتھ ایک ارب روپے مزید ملالئے جاتے تو آرام سے عام انتخابات کے لئے کافی ہوجاتے۔اسی غریب ملک کا پیسہ سرکاری پروٹوکول اور شاہ خرچیوں پر بے دریغ اڑایا جارہا ہے۔ کیا یہ ملک بیرونی دوروں پر وزیروں اور مشیروں کی موج مستیوں کا متحمل ہوسکتا ہے۔چودہ سیاسی جماعتوں کے پچاسی وزرا پر مشتمل کابینہ کا کیا جواز ہے؟ اقتدار کے نشے میں مست حکومت اور اسکے اتحادیوں نے آئین و قانون کی دھجیاں اڑالی ہے۔ایک طرف حکومت اعلی عدلیہ کے خلاف کھڑی ہوگئی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی قیادت فوج کے خلاف سینہ سپر ہے۔ اسی طرح میڈیا میں پولرازیشن اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ عوام کے لئے کھرے اور کھوٹے کی تمیزکرنا مشکل ہوگیا ہے۔ سیاسی قیادت میڈیا پرصبح و شام ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگاتے دکھائی دیتی ہے۔گالم گلوچ کی سیا ست نے عوام کو سیاست اور سیاستدانوں سے ہی بے زار کردیا ہے۔ اداروں کے درمیان اسی تصادم کے نتیجے میں ملک میں سیاسی بے یقینی اور معاشی بدحالی کی وجہ سے عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پس رہاہے۔عدم سیاسی اور معاشی استحکام کی وجہ سے دہشت گردی کے منحوس سائے ایک بار پھر ملک کے طول و عرض پر منڈلائے جارہے ہیں۔ حکومتی اداروں کے اندر کرپشن کا بازار گرم ہے۔ عدالتوں میں انصاف ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔یہی وجہ ہے کہ عوام کا اپنے ہی حکومت اور ریاستی اداروں پر اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔عوام جگہ جگہ پر قانون کو ہاتھ میں لئے دیکھے جارہے ہیں۔ہم روز دیکھتے ہیں کہ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں جب کوئی ڈاکو عوام کے ہتھے چڑھ جاتا ہے تو وہ انکو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کرنے کی بجائے خود ہی ان کا درگت بنالیتے ہیں۔ گزشتہ روزمردان میں توہین رسالت کے مرتکب شخص کا عوام کے ہاتھوں سر بازار قتل یقینا ایک افسوسنا ک واقعہ ہے۔ ایسے شخص کو سزا ضرور ملنی چاہئے تھی لیکن اسکے لئے حکومتی اداروں پر عوام کا اعتماد ہی آٹھ گیا ہے۔ انکو پتہ ہے کہ ملک کے ارباب اختیار اپنے غیر ملکی آقاوں کی رضامندی کے خلاف اسلام اور شریعت کے موافق کسی بھی طرح کا فیصلہ لینے کی جسارت نہیں کرسکتے۔ اس ملک کے ارباب اختیا ر کو سوچنا چاہئے کہ یہ ملک رہے گا تو انکی سیاست رہے گی۔اور اس ملک کی بقا کا دارومدار اس بات پر ہے کہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ملک کی مقتدر قوتیں اور ادارے سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس ملک کو اس بھنور سے نکالنے کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب کریں۔پچھتر سال بعد ہی سہی لیکن آج بھی اگر ہم اپنے لئے کسی منزل کا تعین کریں۔اس منزل تک پہنچنے کے لئے کوئی سمت معین کریں اور پھر اس منزل تک پہنچنے کے لئے کسی ٹھوس اور قابل عمل لائحہ عمل کا انتخا ب کریں توآہستہ ہی سہی لیکن یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ایک نہ ایک دن ہم اپنی منزل مراد پاہی لیں گے۔اور اگر ہم اسی طرح ایڈہاک بنیادوں پر ملک کے انتظام و انصرام کا وطیرہ اپنائے آگے بڑھتے رہے تو یہ بات بھی وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

مزید پڑھیں:  خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں