مشرقیات

زندگی کے نشیب و فراز نے ہمیں ایک بار پھر اٹھا کر نئی جگہ پٹخ دیا اور وہاں ضرورت پڑی ایک ماسی کی۔محلے والوں کی مد د سے یوں مائی کریماں کے قدم مبارک ہمارے گھر کی دہلیز پر پڑے۔ میرے لیے وہ دن شاید کسی بھی تہوار سے کہیں بڑھ کر تھا کیونکہ روزانہ کی صفائی ، کپڑا دھلائی ، کھانا پکانا اور برتن مانجھ مانجھ کر میں اپنے ہاتھوں کو دیکھ دیکھ کر میں سرد آہیں بھر کر رہ جاتی تھی ۔مائی کریماں کو دیکھ کر لگا اب راوی اب چین ہی چین لکھنے کو ہے، میں نے تمام کام سمجھا دیا اور سکون سے بیٹھ کر اسے دیکھنے لگی۔ ماسی نے تمام کام کیا اور اپنے گھر چلی گئی۔پورے ایک ہفتے بعد ماسی نے مجھ سے اجرت بابت سوال کیا، مجھے اچانک یاد آیا کہ خوشی کے مارے میں نے کام کی اجرت پہلے طے نہیں کی تھی خیر اب کیا ہو سکتا تھا یہ مرحلہ تو بہرحال آنا ہی تھا۔ میں نے ماسی سے ہی اس بابت پوچھا تو وہ یوں گویا ہوئی”باجی میں چار گھروں میں کام کرتی ہوں’ آپکے برابر والی باجی تو بہت اچھی ہیں انکے یہاں صرف برتن دھوتی ہوں پندرہ منٹ کا کام ہے اور نفیس ایسی کہ ہر سال ڈنر سیٹ چینج کرتی ہیں اور پرانا سیٹ مجھے دے دیتی ہیں۔ وہاں تنخواہ میری پندرہ سو ہے اور روزانہ کا کرایہ علیحد ہ، کل ملا کر چار ہزار لیتی ہوں۔ایک گھر میں ایک بوڑھا جوڑا رہتا ہے انکا سب کام کرتی ہوں ، اب کیا بتاؤں کیسے بہترین لوگ ہیں انکے بچے باہر ہوتے ہیں تنخواہ میری بیس ہزار ہے مگر پانچ ہزار مجھے الگ سے دیتے ہیں کیونکہ باجی تنہائی کا شکار رہتی ہیں تو باتیں کرنے کے ہی پانچ ہزار ملتے ہیں ، اب مجھے بھی باتیں کرنے کا بہت شوق ہے جی اسی سے اگر پیسہ بن جائے تو کیا برا ہے ۔ میں نے دل مضبوط کر کے پوچھا اور باقی ایک گھر؟تو ماسی کہتی ارے باجی انکا تو پوچھو ہی مت وہ میرے پرانے لوگ ہیں برسوں کام کیا خوب خدمت کی میں نے اور سچی بات ہے انہوں نے بھی میرا خیال رکھا۔ میری ہر بیٹی کی شادی پر پورا جہیز بنایا اور ایک ایک لاکھ الگ سے دیا۔ہم غریب ضرور ہیں مگر غریب کی بچی کے بھی تو ارمان ہوتے ہیں نا ، میری بچیوں کے سب نہیں تو آدھے پونے ارمان انہی لوگوں نے پورے کیے خدا جھوٹ نہ بلوائے ۔اب تک مجھے حقیقی معنی میں دن میں تارے دکھائی دینے لگے تھے ۔میں نے پھر بھی ہمت کر کے پوچھا کہ پھر تنخواہ کیالیتی ہو وہاں تو بولی اب اتنا نمک کھایا ہے انکا تو بلکل مناسب اجرت لیتی ہوں پندرہ ہزار اور دن کا کھانا الگ۔مجھے اس وقت یہ ماسی معاشی طور پر خود سے زیادہ مستحکم نظر آئی۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ مائی کریماں کی آواز آئی ، ہاں تو تم کیا دوگی؟اور میں تھوک نگل کر بس اتنا کہہ پائی کہ میرے خاوند کو آپکا کام پسند نہیں آیا، کل سے مت آئیں۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے