یہ تجربات کتابوں میں تھوڑی لکھتے ہیں؟

دیگر موضوعات
ہم تو کمبل کو چھوڑ نا چاہتے ہیں مگر یہ کم بخت کمبل ہی ہمیں نہیں چھوڑ رہا’ یعنی ہم تو دیگر موضوعات پر بات کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ ٹماٹر ہماری جان نہیں چھوڑ رہے، گزشتہ روز یعنی10جولائی کو شائع ہونے والے کالم میں ہم نے ٹماٹروں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نہ صرف بھارت کا ذکر کیا تھا بلکہ ایک مغربی ملک میں ٹماٹر میلے کا بھی تذکرہ کیا تھا۔ اب ایک بار پھر بھارت سے ٹماٹروں کی ”کارستانی” کے حوالے سے ایسی خبریں آ رہی ہیں جن کی وجہ سے ٹماٹروں نے نہ صرف ہنستے بستے گھروں میں تفرقہ پیدا کرتے ہوئے دراڑیں ڈال دی ہیں بلکہ شادیوں کو بھی دائو پر ڈال دیا ہے، بھارتی دار الحکومت نئی دہلی سے ملنے والی خبروں کے مطابق بھارت میں ٹمائر کی قیمتیں انتہائی زیادہ بڑھ جانے پر کئی گھروں میں لڑائی جھگڑوں کی خبریں سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں جبکہ بعض افراد کی شادیاں بھی دائو پر لگ گئیں’گھریلو جھگڑوں کی تفصیل تو خبر میں شامل ہے۔ البتہ شادیاں کیسے دائو پرلگ گئی ہیں اس کا اندازہ بھی یوں لگایا جا سکتا ہے سے پہلے گھریلو جھگڑوںکی تفصیل پر بات کی جائے ، بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ریاست مدھیا پردیش کے ضلع شہدول میں سالن میں زیادہ ٹماٹر استعمال کرنے پر بیوی ناراض ہو کر شوہر کا گھر چھوڑ کر چلی گئی’ دونوں میاں بیوی کھانے کا ڈھابہ چلاتے ہیں، جس کے لئے شوہر مختلف سالن بناتے رہے ہیں’لیکن حالیہ دنوں میں ٹماٹر مہنگے ہونے کی وجہ سے بیوی نے شوہر کو کم ٹماٹر استعمال کرنے کا کہا تھا لیکن انہوں نے اپنی مرضی سے زیادہ ٹماٹر استعمال کئے بیوی نے فیصلہ کیا تھا کہ جب تک ٹماٹر کی قیمت کم نہیں ہوتی تب تک ہر سالن میں صرف دو ٹماٹر استعمال کئے جائیں گے لیکن شوہر نے سالن کو ذائقہ دار بنانے کے لئے زیادہ ٹماٹروں کا استعمال کیا اس طرح ٹماٹر نے میاں بیوی کے درمیان اختلاف کاخلیج حائل کر دی’ ممکن ہے شوہر نے اردو کا وہ محاورہ سن رکھا ہو کہ گھی سنوارے سالنا ‘ بڑی بہو کا نام ‘ اور اسی کی طرز پرانہوں نے سالن میں ٹماٹر کے ذائقے کے بارے میں سوچا ہو ‘ ویسے خدا لگتی کہئے توان کی سوچ اتنی غلط بھی نہیں ‘ اب اسی حوالے سے بھارت میں شادیوں کے دائو پرلگ جانے پر بھی بات ہوجائے ‘ جوکچھ یوں ہوسکتا ہے کہ شادیوں کے مواقع پرجوکھانے باراتیوں کی تواضع کے لئے پکائے جاتے ہیں ان کے حوالے سے دولہا والوں کی ڈیمانڈ یہ ہوسکتی ہے کہ کھانوں میں ٹماٹروں کا استعمال کسی بھی طور کم نہیں ہونا چاہئے جبکہ دلہن والے بے چارے ٹماٹروں کی حالیہ مہنگائی کے پیش نظر باورچیوں سے ہاتھ ہولا رکھنے کا کہتے ہوں گے’ اور ظاہر ہے بنا ٹماٹروں کے یا کم مقدار میں ٹماٹر کے استعمال سے کھانوں کی لذت پر سمجھوتہ کرنا مہنگا پڑ گیا ہو ‘ تاہم ابھی تک باراتوں کے لئے پکائے جانے والے پکوانوں میں کم مقدار میں ٹماٹروں کے استعمال کی شکایت پر کسی بارات کے واپس لوٹنے کی خبر تادم تحریر سامنے نہیں آئی جبکہ ولیمے کے مواقع پربھی کسی دلہن کی جانب سے اپنے سسرال والوں سے ایسی کوئی فرمائش سامنے نہیں آئی کہ دیکھئے سسر اور ساس جی ہمارے ولیمے کے کھانوں میں کم ٹماٹرڈال کر ہمارے لئے ساری زندگی کے طعنے سننے کا سامان مت کیجئے گا ‘ ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ جائیں گے ‘ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ جوخاتون اپنے شوہر کی جانب سے ڈھابے کے لئے سالن بنانے کے دوران زیادہ ٹماٹروں کے استعمال پر ناراض ہو کر گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئی ہے ‘ اسے شوہر منا کر واپس لانے میں کامیاب ہوگیا ہے یاپھر صورتحال ابھی تک کشیدہ ہے ؟ ممکن ہے شوہر بے چارہ کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہواہو کیونکہ ڈھابہ چلانا اکیلے شوہر کے بس کی بات نہیں ہے’ وہ تو صرف سالن بنا سکتاہے فروخت کرنے کی ذمہ داری توبیوی کی ہے ‘ ان دو ٹماٹروں تک”خود کو محدود” رکھنے کے حوالے سے ہمیں بھی دو واقعات یاد آگئے ہیں جن کو آپ آپ بیتی بھی کہہ سکتے ہیں۔1980ء کی دہائی میں راقم ریڈیو پاکستان کوئٹہ پرتعینات تھا ‘ ہمارے ڈائریکٹر جنرل مرحوم قاضی احمد سعید ایک بارسرکاری کام سے کوئٹہ آئے ‘ تو وہاںمہنگائی کے حوالے سے بات ہو رہی تھی ‘حکومت نے سرکاری ملازمین کو دس فیصد ایڈہاک ریلیف دیاتھا ‘جو ہر سرکاری محکمے کو دیاگیا مگر قاضی صاحب مرحوم کی مہربانی سے ریڈیو کے ملازمین اس سے محروم رکھے گئے ‘ میٹنگ کے دوران مہنگائی کاتذکرہ کرتے ہوئے ٹماٹروں کی مہنگائی پر تان آکر ٹوٹ گئی توقاضی صاحب نے مشورہ دیا کہ اپنی بیویوں سے کہو کہ وہ ہانڈی میں صرف دوٹماٹر ڈالے ‘ اسی طرح تقریباً اسی دور میں یعنی 70اور 80ء کی دہائیوں کے دوران ہم دوستوں نے پشاور میں ایک ”انجمن خوش خوراکان” بنائی تھی ‘ جوہفتے میں کم ازکم ایک بار نمک منڈی میں کڑاہی تکہ سے لطف اندوز ہونے ضرور جایا کرتے ‘ ان دنوں ٹماٹر بہت سستے تھے بلکہ دنبے کا گوشت بھی اتنا سستا تھا کہ جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے بلکہ اگر میں نے اس کا نرخ بتا دیا تو آپ اسے ”سفید جھوٹ” بھی قرار دے سکتے ہیں ‘ تاہم اس دور کے جو لوگ بقید حیات ہیں وہ ہماری بات کی تائید کر سکتے ہیں ‘ خیرجانے دیں اب اس دور کے گوشت کے نرخوں پر کیا بحث کرنی ‘ جبکہ بات ٹماٹروں کی ہو رہی ہے ‘ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کڑاہی میں گوشت ڈال کربھوننے کے لئے رکھ دیا جاتا ہے تواس میں تب تک ٹماٹر نہیں ڈالے جاتے جب تک کہ گوشت گل کرنرم نہ ہوجائے ‘ کیونکہ اگر گلنے سے پہلے گوشت میں ٹماٹر ڈالے جائیں توگوشت کبھی نہیں گلے گا اور سخت گوشت نہ تو کھانے کے قابل ہوتا ہے ‘ نہ ہی ہضم ہوتا ہے بلکہ پیٹ میں درد کا باعث بن جاتا ہے ‘ خیر توجب ہماری کڑاہی کا گوشت گلنے پرآتا اور گوشت پکانے والا اس میں ٹماٹر ڈال دیتا تو ہم جو اس سے پہلے اسی جگہ سبزیوں کی دکان سے مزید آدھا کلو ٹماٹر اٹھا کر لائے ہوتے وہ بھی کڑاہی میں ڈال دیتے ‘ اس پردکاندار معترض ہوتا مگر چونکہ ہم مستقل گاہک تھے اس لئے زیادہ ٹیں ٹیں نہ کرتا ‘ دراصل اسے تمام ٹماٹروں کا جوس پکانے پراضافی وقت اور آگ خرچ کرنا پڑتی ۔ بقول شاعر
یہ تجربات کتابوں میں تھوڑی لکھے ہیں
بہت سے سال لگے ‘ سال بھی جوانی کے
ایک وہ بھی زمانہ تھا جب متحدہ ہندوستان کے دور میں اوراس کے بعد یعنی تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان اور بھارت کی الگ الگ مملکتوںکے قیام کے وقت جو تھیٹریکل کمپنیاں سٹیج ڈرامے منعقد کرتیں ‘ ان میں اداکاروں کی اچھی اور بری کارکردگی پرداد اور بے داد دینے کے لئے تماشائی دوطرح سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ‘ اگر کسی کی اداکاری اچھی لگتی تو تماشائیوں کی جانب سے ونس مور ‘ لنس مور کے نعروں کے شور میں اداکار پر سکوں کی بارش کی جاتی اور اگر اداکار نے مرنے کی ایکٹنگ بھی کی ہوتی تو وہ اٹھ کر ایک بار پھر وہ سین دوہراتے ہوئے بار دگر مرنے کا مظاہرہ کرتا اور اگر کسی اداکار کی اداکاری قابل داد نہ ہوتی یا بری ہوتی تو تماشائی اپنے ساتھ ٹوکریوں میں لے جائے گئے گندے ٹماٹروں اور گندے انڈوں سے اداکار کی”پذیرائی” کرتے ہوئے وہ درگت بناتے کہ اداکار کونانی یاد آجاتی ۔ اب تو خیر وہ زمانہ نہیں رہا ‘ پہلے تو تھیٹر صرف لاہور تک محدود ہو چکے ہیں ‘ کراچی میں عمرشریف اورمعین اختر کے گزرنے کے بعد وہاں اب کم کم ہی کوئی ڈرامہ سٹیج کیا جاتا ہے ‘ جبکہ لاہور میں بھی سنجیدہ ڈرامے کی جگہ جگت بازی ہی رہ گئی ہے ‘ جبکہ اب انڈے بھی گندے ہونے سے پہلے لوگ ہڑپ کرلیتے ہیں اور ٹماٹر بھی گندے ہونے کا نام نہیں لیتے ‘مہنگائی کی وجہ سے لوگ اختیاط کے ساتھ فریج اور ڈیپ فریزر میں سنبھال کر رکھتے ہیں اور اب وہ دور بھی نہیں رہا جب علامہ اقبال نے کہا تھا
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیںگندے

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال