بھلائی کا زمانہ نہیں

مشکلات میں گھرے ہوئے لوگوں کی یہ سوچ تو ہوگی ہی اب اچھے خاصے لوگ بھی اکتاہٹ اور بے زاری کا شکار ہو کر یہ سوچنے لگے ہیں کہ اب دنیا بہتر جگہ نہیں رہی اور زندگی روز بروز نہ صرف مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے اب تو اطمینان اور خوشی کا صرف نام ہی رہ گیا ہے عملی طور پر اس کا احساس ختم ہوتا جارہا ہے بچوں میں معصومیت نہیں رہی اور بڑوں میں جو اقدار ہونے چاہئیں وہ رخصت ہو چکیں ۔ دنیا کے بہتر نہ ہونے کے حوالے سے ہماری دینی تعلیمات واضح ہیں جس میں دنیاکو مسلمان کے لئے قید خانہ اور کفار کے لئے جنت گردانا گیا ہے دینی دروس کی حکمت و صداقت کو ردکرنے والے بھی بالاخر اس کی حقیقت کااعتراف کرنے کے نتیجے پر خود بخود پہنچ جاتے ہیں حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی کے مصداق آج سائنس کی ترقی اور تحقیق کے باعث ہمارے دین کے احکامات کی صداقت اور انسان کی فلاح کا باعث بننے کے رازوں سے پردہ اٹھ رہا ہے اب اسے صرف ایک عقیدے کے طور پرتسلیم کرنے کی بجائے دنیا اسے حقائق کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد تسلیم کرنے کے نتیجے پر پہنچ چکی ہے بہرحال بطور مسلمان ہم آمنا و صداقنا اور ایمان بالغیب رکھنے والے ہیں لیکن یہ عقیدے اور عقیدتوں کا سوال نہیں بلکہ اب عملی طور پر ہر ایک نہیں تو ہر دوسرا اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ دنیا اچھی جگہ نہیں دنیا کی زندگی مشکلات پیچیدگیوں اور خوشیوں کی جگہ دکھوں اور غم سے عبارت ہے تھوڑی بہت مسرتوں کے ساماں بدلتے حالات کی نذر ہو چکے ہیں ان حالات میں جب بھلائی کا زمانہ نہ رہا انسانی بھلائی اخوت اور بھائی چارے کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے ہمیں تو یہ سبق سیکھنے کی نہیں بلکہ اسے دہرانے کی ضرورت ہے تیسری دنیا کے ممالک اور پاکستان کے حالات پر ایک نظر بعد میں ڈالتے ہیں پہلے مشکل حالات کے کچھ مثبت پہلوئوں کاجائزہ لیتے ہیں ان حالات میں جو تیسری دنیا میں عام ہیں کچھ مثبت ضرور ہے جس میں سے سرفہرست لوگوں کا اپنی مدد آپ اور اپنے حالات خود بدلنے کی ٹھان لینے کا عزم صمیم اس چکر میں سیدھے راستے کی بجائے جن لوگوں نے غلط راستہ اختیار کیا اس کا نتیجہ حال ہی میں کشتی کے حادثے کی صورت میں سامنے ہے اس کے باوجود لوگ یہ راستہ چھوڑنے کے لئے اس لئے تیار نہیں کہ وہ سیدھے راستے سے کٹھن مراحل طے کرکے بھی منزل سے ہمکنار ہونے میں ناکام رہتے ہیں بہرحال اپنی جان و مال ہلاکت میں ڈالنے اور سب کچھ دائو پر لگاکر ہارنے اور ناکامی کی پھر بھی وکالت نہیں ہو سکتی سیدھے راستے ‘ جدوجہد اس لئے کہ سیدھا راستہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ مثبت امر یہ ہے کہ بے شمار لوگوں نے جدوجہد کرکے بیرون ملک کام کے مواقع حاصل کئے ملک اور خاندان سے دور رہنے کی قربانی کی قیمت پر وہ خاندان کو مالی سہارا دینے اور اور ملک کو قیمتی زرمبادلہ ارسال کرنے کی خدمت میں مصروف ہیں پاکستان کی بہ نسبت وہ ترقی یافتہ اور تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں کام کرکے ماہانہ خطیر رقم گھر والوں کو بھجوا رہے ہیں گلوبلائزیشن کا لوگوں اور رقم کی آمدورفت میں خاص اہم کردار ہے ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کا عمل زیادہ پرانا نہیں ماضی قریب کاحصہ ہے جب چلو چلو دبئی چلو کا ٹرینڈ چلا اور اس پر ڈرامے بھی لکھے گئے خیبر پختونخوا کے علاقوں دیر ‘ سوات ‘ چترال ‘وزیرستان ‘ ٹانک ‘ہنگو وغیرہ کے علاقوں کے غیر ہنر مندوں اور محنت کشوں کی خاصی بڑی تعداد خلیجی ممالک میں مقیم ہے جبکہ چراٹ اورخٹک نامہ کے خاصے لوگ یورپ میں ہیں اسی طرح آزادکشمیر ‘ گجرات اور پنجاب و خیبر پختونخوا کے لوگ بھی یورپی ممالک میں مقیم آباد اور کام کر رہے ہیں پاکستان کا کوئی بھی ایسا علاقہ نہیں جہاں کے لوگ بیرون ملک روزگار سے وابستہ نہ ہوں۔ جس ملک میں بیروزگاری اور معاشی ناانصافی عام ہو اس ملک کے باشندوں کا ملک سے باہر جاکر قسمت آزمانا فطری امر ہے ایسے میں برین ڈرین کا ہونا کسی اچھنبے کی بات نہیں بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے ۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر اب بڑی حد تک ترسیلات زر پر منحصر ہیں اب دنیابھر میں حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور سعودی عرب جیسے ملک میں مقامی افراد کو ملازمتوں میں ترجیح اور سعودی معاشرے میں بہت سے ایسے شعبوں میں مقامی شہریوں کی دلچسپی جو قبل ازیں خارجیوں کے لئے مخصوص تھے اب ہر ملک کے مقامی باشندے غیر ملکیوں کی جگہ لے رہے ہیں ایسے میں ہنر مندوں کی تعداد میں اضافہ ہنرمندی کی تعلیم پر توجہ اور بین الاقوامی مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق کارکنوں کی تیاری پر توجہ دے کر ہی اس شعبے کو برقرار رکھا جا سکتا ہے جو لوگ بیرون ملک مقیم ہیں وہ اپنی محنت کی رقم کاکچھ حصہ اپنی اولاد کو پوری طرح ہنر مند بنانے پر صرف کریں تو ان کے معاشی چکر کے منقطع ہونے کی نوبت نہیں آئیگی عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ بیرون ملک کام کرنے والے محنت کش سفید بال کمزور جسم اور بیماریاں و معذوری لے کر واپس آتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کوئی اچھا وقت بھی یہاں ان کا منتظر نہیں ہوتا ان کے باہر ہونے کے باعث اولاد پر بھی مناسب توجہ نہیں ہوتی اور اس سنگین مسئلے کا ان کو ا لگ سامنا ہوتا ہے یہ وہ چند عوامل ہیں جن پر بروقت توجہ کی ضرورت ہے ملکی صورتحال اور معیشت و روزگار اور کاروباری حالات بھی موافق نہیں اورحالات روز بروز سخت سے سخت تر ہوتے جارہے ہیں مہنگائی اور بے روزگاری نے جینا مشکل بنادیا ہے اس وقت جبکہ صورتحال کہنے کو معمول کے مطابق گردانا جاتاہے عام آدمی کی زندگی مشکل سے بھری پڑی ہے کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات کا سب سے پہلا شکار بھی عام آدمی ہی ہوتا ہے جن کو پہلے سے کچھ پس انداز نہ ہونے سے مزید سنگین حالات کا سامناہوتا ہے عالمی بنک ہمیں لوور مڈل آمدنی میں شمار کرتاہے اور ستر فیصد بلکہ اس سے بھی زائدغربت کی لکیر سے نیچے جی رہی ہے مستزاد ہماری آبادی 25 کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے جس کے باعث آئے روز مسائل میں اضافہ اور نت نئے مسائل سامنے آرہے ہیں لے دے کے اب ملک کا انحصار بیرونی قرضوں پر ہے لیکن ہمیں یہ نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ بیرونی امداد یعنی قرضے لے کر ہم اپنی معیشت بہتر نہیں کر سکتے قرضوں پر سود کے رقم کی ادائیگی کے لئے بھی قرضوں کی ضرورت پڑے اور ملک کی مجموعی شرح نمو اور کل پیداوار اور آمدن پر قرضوں کے بوجھ کی شرح بڑھ جائے اورپھر ملک ادائیگیوں ہی کا ہو کر رہ جائے ایسے میں ترقی اور عام آدمی کی بہتری کے لئے وسائل کہاں سے لائے جائیں قرضے بھی بدعنوانی اور بدعنوانوں کی نذر ہوتے ہیں امداد پر امداد تجوریوں میں جائیں اور احتساب کی کوئی صورت نہ ہو تو ایسے ملک میں زندگی مشکل نہ ہو تو کیا راحتوں سے واسطہ پڑے غور سے حالات کاجائزہ لیا جائے تو ہر شاخ پہ الو بیٹھا نظر آتا ہے مگر زندگی گزارنے کی تگ ودو میں کولہو کا بیل پھربھی بننا ہی پڑے گا اپنی جان پر سختی برداشت کرنا ہی ہمارا مقدر ٹھہر گیا ہے اس مقدر پر لکھنے والے کو الزام نہ دیا جائے بلکہ استحصالی طبقہ اس کا ذمہ دار ہے جس کے خلاف متحد ہونے اور اپنی حالت آپ بدلنے کا قوم جتنا جلد فیصلہ کرے مناسب ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ملک چلے گا کیسے؟