افغان عبوری حکومت کو واضح پیغام

چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے ا فغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی پر تشویش کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت دوحہ معاہدے کے مطابق اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دے گی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان کی مسلح افواج کو افغانستان میں ٹی ٹی پی کو دستیاب محفوظ پناہ گاہوں اور کارروائی کی آزادی پر شدید تحفظات ہیں، توقع ہے کہ عبوری افغان حکومت اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔آئی ایس پی آر نے مزید کہا ہے کہ وہ دوحہ معاہدے میں کئے گئے وعدوں کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میںافغان شہریوں کی شمولیت پر تشویش ہے اس پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے آئی ایس پی آر کے مطابق اس طرح کے حملے ناقابل برداشت ہیں اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی جانب سے موثر جوابی کارروائی ہوگی دہشتگردوں کے خلاف آپریشن بلا امتیاز جاری ہے گا اور مسلح افواج ملک سے دہشت گردی کے ناسور کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے ۔پاک فوج کے سربراہ کا بیان اور پاک فوج کے ترجمان کا تنبیہی بیان معروضی صورتحال میں درگزر کے مترادف امر ہے وگرنہ جس قسم کی صورتحال سرحد پار سے بار بار پیدا کی جاتی رہی ہے اس کا تقاضا گرم تعاقب کا ہونا چاہئے تھا۔ اعداد و شمار سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی آمد کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق اس سال2023کی پہلی ششماہی میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔جبکہ گزشتہ سال 2022کی اسی مدت کے مقابلے میں 151 حملے ہوئے تھے 293افراد ہلاک اور 487 زخمی ہوئے رواں سال اب تک 271 حملے ہوئے تھے جس میں 389 ہلاک اور 656زخمی ہوئے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ افغانستان میں اب بھی امن کے لئے خطرات پیدا کرنے والوں کے ٹھکانے موجود ہیں اورافغانستان اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے وعدے کی پوری طرح پابند ی نہیں کر رہا ہے ماضی کی حلیف افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے روابط اور ذہنی ہم آہنگی ناممکن نہیں اور اسی کا ٹی ٹی پی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ہمسایہ ملک کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ اور استحکام کی راہ پوری طرح ہموار ہو۔افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء اور ملکی اختیار کے حصول کے بعد طالبان کے لئے یہ سنہرا موقع تھا کہ وہ یہ ثابت کرتے کہ انہوں نے ماضی کے حالات سے بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ زمام اقتدار سنبھالنے کی قابلیت رکھتے ہیں لیکن اس میں وہ ناکام رہے ۔ طالبان عبوری حکومت کے استحکام اورعلاقائی تعمیر و استحکام کا تقاضا تھا کہ وہ خطے کے ممالک سے بہتر روابط استوار کرتے اور علاقائی تعاون کو فروغ ملتا مگر ایسا لگتا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی سے متاثر ہیں افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانے بدستور فعال ہیں اور پاکستان کی جانب سے بار بارتوجہ دلانے کے باوجود اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دینے کے لئے تیار نہیں اور ان کی جانب سے ایک بھی ایسا سنجیدہ اور ٹھوس اقدام سامنے نہیں آیا یہ صورتحال علاقائی امن و استحکام کے لئے خطرہ نہیں بلکہ خود طالبان عبوری حکومت کو اپنے ہاتھوں کمزور کرنے کے مترادف ہے طالبان ایک مرتبہ افغانستان پرغلبہ پانے کے بعد اسے کھو دینے کا تجربہ رکھتے ہیں اور ابتلاء کے ہر موقع پر پاکستان ہی نے ان کا ساتھ دیا اب پاکستان کے ساتھ ان کے روایتی تعلقات نہیں رہے اور سفارتی اورعالمی طور پر بھی وہ اپنی پالیسیوں کے با عث تنہائی کا شکار ہیں ایسے میں ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کی بجائے حال کے اصلاح پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہی ہر دو ممالک کے مفادات اچھی ہمسائیگی اور علاقائی تعاون و استحکام کا تقاضا بھی ہے ۔ پاک فوج کے سربراہ کی سطح پر اور پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے شاید پہلی مرتبہ ایسے خیالات کا اظہار سامنے آئے ہیں جس سے واضح ناراضگی کا ہی اظہار نہیں ہوتا بلکہ مسکت اقدام کے امکانات کا اشارہ بھی ملتا ہے افغان عبوری حکومت کو اس طرح کی امور میں خود کو الجھانے کی بجائے ایک واضح راستہ اختیار کرکے اپنے جغرافیائی اور معدنی وسائل کو ترقی دے کر جنوبی ا یشیاء اوروسطی ایشیائی خطے میں پل کا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔خطے میں امن قائم ہونے کے بعد ہی علاقے میں تجارتی لین دین اور روابط کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے افغان عبوری حکومت کو اپنی پالیسیوں اور ترجیحات کا دوبارہ تعین کرکے ایک مثبت کردار کا مظاہرہ کرنا چاہئے جس سے خود افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک میں امن و استحکام اور ترقی کی راہ ہموار ہو اور افغان عوام مشکلات سے نکلیں۔

مزید پڑھیں:  مگر یہاں تو ظلم پر ہے احتجاج بھی غلط