بدترین مہنگائی سے چشم پوشی کیوں

مہنگائی میں مسلسل اضافے کا رجحان بدستور جوں کا توں ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ذمہ داران کی اس معاملے سے چشم پوشی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ آئے دن بہتری کی امیدیں دلانے والوں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ اس حقیقت کو جان اور سمجھ سکیں کہ آمدنی کے مقابلہ میں زائد اخراجات کی بدولت معاشرے کے مختلف طبقات بالخصوص سفید پوشوں اور نچلے طبقات پر جو بیت رہی ہے اس کے ازالے کے لئے اگر موثر کوششیں نہ ہوئیں تو حالات کیا رخ اختیار کرسکتے ہیں، اسی طرح حالیہ آئی ایم ایف معاہدے کی ایک شرط کے مطابق بجلی کی فی یونٹ قیمت میں4 روپے 96 پیسے فی اضافے کی منظوری دی گئی ہے اس طور فی یونٹ 24 روپے 82 پیسے سے بڑھ کر29 روپے 78پیسے ہوگیا، مقابلتاً عام صارف کی فی خاندان ماہانہ آمدنی کی حالت کیا ہے اس میں پچھلے سوا سال کے دوران کتنی کمی ہوئی یا موجودہ منتخب اسمبلیوں کے قیام سے اب تک منتخب ارکان نے مختلف شعبوں میں اصلاح احوال کیلئے کیا اقدامات کئے یا یہ کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور اب پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت نے مہنگائی کے خاتمے کو اولین ترجیح کیوں نہ قرار دیا یہ بذات خود سوال ہے۔ سابقہ دور میں اس وقت کے حکمران مہنگائی کو عالمی حالات کا نتیجہ قرار دینے کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا کرتے تھے کہ کاروباری شعبہ کے لوگ زیادہ تر (ن) لیگ سے متعلق ہیں وہ اپنی قیادت کے کہنے پر ذخیرہ اندوزی کرکے مہنگائی پیدا کرتے ہیں گو یہ محض ذمہ داریوں سے فرار کی ایک ناکام کوشش ہی تھی مگر انہی دنوں حزب اختلاف (آج اقتدار میں ہے) کے ذمہ دار کہا کرتے تھے کہ ناتجربہ کاروں کے ٹولے نے عوام پر عذاب توڑنے کے ساتھ ساتھ ملک کو معاشی مسائل سے دوچار کردیا ہے نیز یہ کہ پی ٹی آئی کی ناتجربہ کار حکومت نے خارجی محاذ پر بھی دوستوں کو ناراض کرکے پاکستان کے لئے مسائل پیدا کئے
ہیں۔ بہرطور تجربہ کاروں کو اقتدار میں آئے ہوئے لگ بھگ سوا سال ہوگیا اسی عرصے میں مہنگائی اور دوسرے مسائل کے حل پر توجہ دینے کی بجائے مسلسل روایتی سیاست کے طور طریقوں پر ہی عمل کیا جاتا رہا، مثلاً مہنگائی کے حوالے سے ارباب اختیار کا موقف ہے یہ پی ٹی آئی کی تباہ کن پالیسیوں کا نتیجہ ہے، عین ممکن ہے یہ بات درست ہو، سوال یہ ہے کہ سوا سال کے دوران مہنگائی میں کچھ نہ کچھ تو کمی آنی چاہئے تھی۔ پی ٹی آئی کے دور میں مسلسل یہ کہا جاتا تھا کہ ہم چینی کی قیمت 55 روپے چھوڑ کر گئے تھے یہ 100روپے کلو ہوگئی، اب گزشتہ سوا سال کے دوران 100 روپے سے بڑھ کر یہ قیمت 150 روپے کلو ہوگئی، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ گنے کے کاشتکار کے مقابلہ میں شوگر مافیا کی پوزیشن ہر اعتبار سے مستحکم ہے کیونکہ ان کے نمائندے ہر دور کی حکومت میں موجود ہوتے ہیں۔ ادھر وفاقی ادارہ شماریات کی حالیہ ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 28.96 فیصد پر جاپہنچی ہے، گزشتہ ہفتے کے دوران آٹے سمیت 21اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ ملک گیر سطح پر منظم انداز میں کئے جانے والے ہفتہ وار سروے اور مرتب کردہ رپورٹ پر ہمیشہ تحفظات بھی رہے اور ان غلطیوں کی نشاندہی بھی ذرائع ابلاغ نے کی جو رپورٹ مرتب کرنے میں ہوئیں، اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ کے دو بڑے ماخذ ہیں، اولاً مقررہ سرکاری نرخ اور ثانیاً منڈیوں کی ریٹ لسٹیں اس کے برعکس اگر عام مارکیٹوں میں قیمت فروخت کے حوالے سے سروے کرایا جائے تو یہ امر عیاں ہوجائے گا کہ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے برعکس قیمتوں میں اضافے کی شرح زیادہ ہے، قیمتوں میں مسلسل اضافے کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے اولاً یہ کہ اضافہ آبادی کے مختلف طبقات کے علاقوں کے حوالے سے بھی مختلف ہے، مثال کے طور پر دالوں، چینی اور آٹے کے جو نرخ اوسط درجہ کی قوت خرید رکھنے والے صارف کے علاقے میں ہیں وہ مڈل کلاس کی شہری آبادیوں میں یکسر مختلف ہیں محض یہ کہہ دینا درست نہیں ہوگاکہ آبادی کا بڑا حصہ خریداری کے وقت بھائوتائو کو غیرضروری سمجھتا ہے اس لئے بھی منافع خور عوام کی کھال اتارنے میں رتی برابر خوف محسوس نہیں کرتے۔ قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے اور منافع خوری پر قابو پانے کے لئے ضلعی سطح پر پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا کردار غیرموثر کیوں ہوا کیا، منافع خوروں نے انتظامی اہلکاروں کے تعاون سے ان کمیٹیوں کوعضو معطل بنادیا، انتظامی مشینری نے فرائض میں شامل اس پہلو کو غیرضروری سمجھ کر نظرانداز کیا؟ موجودہ حالات میں یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ گزشتہ سوا برس کے دوران اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مجموعی طورپر 30 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، گزشتہ برس کے آغاز پر اوسط درجہ کے معیار کی حامل آبادی میں جو چیز 100روپے کی تھی وہ اس وقت 130سے 140 روپے میں ہے، اس پر ستم بجلی، سوئی گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے، کوئی بھی ذی شعور شخص اس امر سے انکار نہیں کرسکتا کہ بجلی، سوئی گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں کو اعتدال میں لائے بغیر مہنگائی پر قابو پانا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہے، پیداواری لاگت بڑھتی جائے اور قیمت فروخت کم ہو یہ کاروبار کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہوگا، یہی وہ نکتہ ہے جو ہمارے پالیسی سازوں کو بہرصوت مدنظر رکھنا چاہئے، ہمیں یہ امر بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ آئی ایم ایف سے ہوا حالیہ معاہدہ 9 ماہ کے لئے ایک عبوری انتظام ہے اس عرصہ میں تین ماہ نگران حکومت ہوگی، اس عرصے میں ہی عام انتخابات ہونے ہیں نئی حکومت کو عنان اقتدار سنبھالتے ہی عالمی مالیاتی ادارے سے رجوع کرنا ہوگا تب کیا حکومت اس پوزیشن میں ہوگی کہ اپنی شرائط پر آئی ایم ایف سے بات کرسکے؟ اصولی طور پر موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی کسی تاخیر کے بغیر مہنگائی اور بیروزگاری کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے تھی افسوس صد افسوس کہ مروجہ سیاست کے ڈھونگوں پر عمل کو ہی کافی سمجھ لیا گیا فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ آٹے کا 10کلو والا تھیلا مقررہ قیمت سے 200 روپے سے زائد میں فروخت ہو رہا ہے، حالیہ دنوں میں مختلف قسم کی دالوں، چینی اور دودھ و دہی کی فی کلو قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے، اسی طرح سبزیوں کے نرخوں کا معاملہ ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ حکمران قیادت نے اپنے اقتدار کے سوا برس میں جس طرح بنیادی نوعیت کے مسائل اور خصوصاً بڑھتی ہوئی مہنگائی کو نظرانداز کیا اس کا خمیازہ اسے آئندہ عام انتخابات میں بھگتنا پڑے گا، گو حکومت کے پاس اب مشکل سے25 سے27 دن ہی بچے ہیں اس عرصہ میں گھمبیر مسائل کو حل کرنا بہت مشکل ہے پھر بھی اگر دردمندی کے ساتھ صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے حکمت عملی وضع کی جائے تو اس عرصے میں اور کچھ نہ بھی ہو تو مہنگائی میں کچھ نہ کچھ کمی کی جاسکتی ہے۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ ارباب اختیار اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام الناس کو کچھ نہ کچھ ریلیف دلوانے کیلئے اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کریں گے۔

مزید پڑھیں:  یقین نہیں آتا