آئو کہ آج ہم بھی گربیاں میں جھانک لیں

نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں ہم 60 کی دہائی کے نصف سے بطور ایک عامل صحافی پشاور کے علاوہ کراچی، اسلام آباد کے ایک قومی اخبار کے ساتھ وابستہ رہے ہیں ان میں بعض اخبارات بھی ”مرحوم” ہو چکے ہیں جبکہ کچھ ایک بار ”مفقود” ہوکر اب دوبارہ شائع ہو رہے ہیں، بہرحال جس دور میں ہم ان مختلف اخبارات کے ساتھ وابستہ رہے اس دور سے جب بھی انتخابات ہوئے ان میں پولنگ کے دوران دنیا سے رخصت ہونے والوں کے حوالے سے بھی خبریں شائع ہوتی تھیں یعنی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار گڑھے مردے اکھاڑ کر ان سے بھی اپنے حق میں ووٹ پول کروا لیتے تھے جس سے اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں اور ان پر کالموں میں تبصرے دلچسپ صورتحال پیدا کردیتے تھے بعض پولنگ سٹیشنوں پر اس وقت ہنگامہ خیزی بھی جنم لیتی تھی جب یہ ”مردے” ووٹ پول کرنے آتے اور پولنگ ایجنٹوں میں سے کوئی ایک ان کو مردہ قرار دیتے ہوئے وہاں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے ان ”زندہ مردوں” کو اپنی تحویل میں لینے کی درخواست کرتے تو یہ زندہ مردے وہاں سے بھاگ کر یوں غائب ہو جاتے جیسے گدھے کے سر سے سینگ یعنی چھلاوہ بن کر بھاگ کھڑے ہوتے اور ڈھونڈے سے بھی نہ ملتے ممکن ہے وہ پھر اپنی ”قبروں” میں گھس کر پناہ لے لیتے ہوں، ویسے یہ زندہ مردوں سے ووٹ اپنے حق میں بھگتانے کا سلسلہ اب بھی کسی نہ کسی طور جاری ہے اور یہ بوگس ووٹ پول ہونے کا مسئلہ حل ہونے ہی کو نہیں آ رہا اور ممکن ہے کہ آنے والے انتخابات میں (اکتوبر، نومبر یا پھر جب بھی ہوں) اب کی بار جنرل پرویز مشرف بھی ووٹر بن کر اپنی پسند کے کسی امیدوار کو ووٹ دیتے ہوئے نظر آئیں۔ ہمارے ذہن میں اس سوچ کے ابھرنے کی وجہ بھی ”بہت معقول” ہے او وہ یوں کہ سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کی ایک درخواست دس سال بعد سماعت کیلئے مقرر کر کے انصاف کا بول بالا کرنے کا ریکارڈ قائم کردیا ہے، معلوم نہیں کہ اس مقدمے کو اپنی نوعیت کے حوالے سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا جاسکتا ہے یا نہیں بہرحال تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے 2013ء کے انتخابات میں کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کا فیصلہ چیلنج کیا تھا ان کی دائر کردہ اپیل پرگزشتہ سماعت5 سال قبل ہوئی تھی اب یہ درخواست ایک بار پھر سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر ہوگئی ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ 20 جولائی کو سابق صدر پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے جانے کے خلاف اپیل پر سماعت کرے گا، انتہائی ادب و احترام اور پیشگی معذرت کے ساتھ عرض کرنے کی اجازت ہو یعنی وہ جو قدیم دور کی کہانیوں میں دربار شاہی میں کوئی تلخ بات کہتے ہوئے لوگ جان کی امان کی درخواست پر یقین دہانی ملنے کے بعد عرض گزار ہوتے تھے تو ہم بھی اس روایت کو سامنے رکھتے ہوئے لب کشائی کرنے کی جرأت کرتے ہیں کہ کیا قابل احترام عدلیہ عظمیٰ کے پاس وہ جو مبینہ ہزاروں کیس پہلے ہی حل طلب ہیں کیا ان پر فیصلے آچکے ہیں اور اب صرف یا تو بقول بہت سے سیاسی رہنمائوں اور تجزیہ کاروں کے، ماسوائے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والوں کی مبینہ سہولت کاری کے اورکوئی کیس باقی کوئی قابل توجہ کیس نہیں رہا کہ اب ”گڑھے مردے” اکھیڑ کر ان کے دس سال پرانے کیسوں کی فائلوں سے گرد جھاڑنے کی ضرورت کا خیال آگیا ہے؟ ویسے تو ہمارے ہاں ماشاء اللہ عدل و انصاف کا بول بالا کرنے کے کئی قصے مشہور ہیں اور جب بعض مبینہ کیسوں میں ملزموں کو بری کرنے کے احکامت صادر کئے گئے تو ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ جن کو الزامات سے بری کرکے باعزت طور پر رہا کرنے کا حکم دیا گیا ان بے چاروں کو ”پھائے لگتے ہوئے” یعنی پھانسی کے پھندے پر جھولتے ہوئے بھی مدت ہوچکی ہے اس کے بعد اگر ان کی باعزت رہائی کے حکمناموں کی فائلیں ان کی قبروں پر رکھی بھی گئیں تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ منوں مٹی تلے سونے والوں کو آسودگی نصیب ہوئی ہوگی یا نہیں تب تو شاید ان کی صورتحال ملکہ ہندوستان نورجہان سے ملتی جلتی ہوئی کہ
بر مزار ما غربیاں، نے چراغ نے گلے
نے پر پروانہ سوز ۔۔۔۔ صدائے بلبلے
اس دور کے محتسبین نے ایسے ”بے گناہ” افراد کے ساتھ طویل مقدمے بازی کے دوران جو رویہ اختیار کیا اس پر فیض احمد فیض نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے۔
محتسب کی خیر اونچا ہے اسی کے فیض سے
رندکا،ساقی کا، مے کا، خم کا، پیمانے کا نام
بات ہو رہی تھی جنرل پرویز مشرف کے مقدمے کی جس میں انہوں نے اپنی نامزدگی کے خلاف لوئر کورٹ یا شاید الیکشن کمیشن میں ہونے والے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی مگر جس پر گزشتہ دس سال کے دوران فیصلہ آج تک سامنے نہیں آسکا بلکہ پچھلے دس سال میں صرف ایک پیشی کے بعد مزید پانچ سال بعد مقدمے کی شنوائی شروع ہونے والی ہے یوں اگر یہ فیصلہ آ بھی جائے تو اس کی حیثیت بالکل ان مقدمات کی سی ہوگی جن میں پھانسی کے پھندے پر جھول جانے والے مبینہ ملزموں کو انصاف فراہم کرتے ہوئے باعزت رہائی کا پروانہ ان کی قبروں پر رکھ دیا گیا تھا، اب اگر جنرل صاحب کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مرحمت کی جاتی ہے تو کیا انہیں آنے والے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے ان کے گڑھے مردے کو قبر سے نکال کر انتخابی میدان میں اتارا جائے گا۔ اگرچہ یہ ایک حد تک ممکن تو ہے یعنی عدلیہ نے بھٹو کو پھانسی چڑھانے کا فیصلہ دے کر (خود کو شرمندگی اور استہزاء کا نشانہ بنوایا) زندہ کیا اور اب مردہ بھٹوں کی قبر پاکستان کی سیاست پر راج کر رہی ہے یعنی بھٹو کے نام پر پڑنے والے ووٹوںکو مزید اہمیت کا حامل بنا دیا۔ البتہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ جنرل مشرف کا مردہ بھی”سیاست کے سر چڑھ کر” بولنے میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے کہ ان کے تمام کرتوت ”مکافات عمل” سے گزرتے ہوئے انہیں نشان عبرت بناچکے ہیں، سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہزاروں مقدمات کی فائلوں پر سے گرد جھاڑ کر ان پر عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلے صادر کرنے کے برعکس ایک ”مردہ” شخص کے مقدمے کی دس سال بعد شنوائی کی کیا ا ہمیت ہے؟ ہماری عدلیہ کی عالمی سطح پر دنیا بھر کی عدالتوں کی صف میں متعین مقام کو اگر دیکھا جائے تو بحیثیت قوم ہمیں بقول عبدالرحمن فاروقی سوچنا چاہئے یعنی
اوروں کا احتساب تو کرتے ہیں روز روز
آئو کہ آج اپنے گربیاں میں جھانک لیں
اس اپیل کی شنوائی سے ممکن ہے پرویزمشرف کی نامزدگی کو چیلنج کرنے والے کو حتمی فیصلے سے آگاہ کرنا مقصود ہو کہ اس کا اعتراض درست تھا یا پھر غلط، تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ جنرل مرحوم کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے والا بھی زندہ ہیں یا خدانخواستہ وہ بھی انتقال کرچکے ہیں اور اگر وہ زندہ ہوں تو فیصلے کے بعد سحر انصاری کے الفاظ میں ضرور سوچئے گا کہ
سزا بغیر عدالت سے میں نہیں آیا
کہ باز جرم صداقت سے میں نہیں آیا

مزید پڑھیں:  پاکستان کو ایک زرعی مُلک رہنے دیں