پاکستان ‘ازبکستان اور افغانستان ریلوے منصوبہ

پاکستان، ازبکستان اور افغانستان نے ریلوے منصوبے کے معاہدے پر دستخط خوش آئند امر ہے۔منصوبے کے تحت براستہ مزار شریف (افغانستان)، خرلاچی (پاکستان) سے ترمذ (ازبکستان) تک ریلوے ٹریک کوملایا جائے گا، گیم چینجر ریلوے ٹریک سے وسطی ایشیاء کو پاکستان سے جوڑنے میں مدد ملے گی۔ یہ منصوبہ تینوں ممالک کے درمیان علاقائی، ٹرانزٹ اور دو طرفہ تجارت میں سہولت فراہم کرے گا۔منصوبے سے خطے کے لوگوں کے درمیان روابط میں بھی اضافہ ہو گا۔ ریلوے لائن مسافروں اور مال بردار سروسز دونوں کو سپورٹ کرے گی اور علاقائی تجارت و اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔امر واقع یہ ہے کہ پاکستان کا فی عرصے سے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت سیاست اور ثقافتی روابط کو فروغ دینے کے لئے کوشاں ہے علاوہ ازیں بھی اب خطے کے ممالک کے درمیان اقتصادی و معاشی تعاون وتجارت پرحالیہ سالوں میں خاص طور پر توجہ نظرآتی ہے پاکستان اور ایران کے ساتھ سرحدی تجارت منڈیوں پر پیش رفت کے ساتھ ساتھ روس سے تیل کی درآمد اور وسطی ایشیائی ریاست سے ایل این جی کا حصول خاصے حوصلہ افزاء معاملات ہیں پاکستان افغانستان اور ازبکستان کی طرف سے کل تر میز کو کرم سے مزار شریف کے ذریعے ازبک ریل نیٹ ورک سے ملانے کا سہ فریقی مفاہمت بھی انہی مساعی کا حصہ ہے جس سے ازبکستان اور پاکستان کے درمیان سامان کی ترسیل اور نقل وحمل میں پانچ دن کی کمی اور اخراجات میں چالیس فیصد کفایت ہو گی اس منصوبے پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد سے شریک ممالک کی اقتصادی ترقی میں تیزی آئے گی سہ فریقی ممالک نے 2027ء کے آخر تک مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے اب یہ وقت اور حالات کے ساتھ ان ممالک کی دلچسپی پر منحصر ہوگا کہ وہ منصوبے کے مطابق اس کی تکمیل کے کتنی کامیابی سے سنجیدہ کوششیں کرتے ہیں علاقائی تعاون کا ایک اور اہم منصوبہ 573 کلو میٹر طویل افغان ریلوے ٹریک کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط بھی ہے جس کے بعد وسطی ایشیاء بحیرہ عرب کی بند گرگاہوں سے جڑجائے گا ساتھ ہی ترمیز ‘ جلال آباد پشاور روٹ کے ذریعے پاکستان کی بندر گاہوں تک بھی رسائی ہونے کے باعث عالمی منڈیوں تک پہنچنے کے سنہری مواقع ملیں گے سی پیک کی تعمیر اس کے علاوہ ہے ۔ان تمام منصوبوں کی افادیت سے تو انکارممکن نہیں البتہ اس کے لئے علاقائی طور پر مستحکم امن کے قیام کی ضرورت کے ساتھ ساتھ محولہ ممالک کے اپنے درمیان معاملات میں بہتری کی ضرورت ہے خطے کے ایسے ممالک جو اس راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں ان کی بھی شمولیت ہونے کی صورت میں منصوبے پرعملدآرمد میں رکاوٹیں دور ہوسکتی ہیں یہ مشکل امر ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔

مزید پڑھیں:  وزیر اعظم محنت کشوں کو صرف دلاسہ نہ دیں