انتخابات۔۔ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

موجودہ اسمبلیوں کی مدت تکمیل کے مراحل تک جوں جوں قریب آتی جا رہی ہے، توں توں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے مختلف آراء اور افواہیں سامنے آتی جا رہی ہیں، ایک جانب اتحادی حکومت میں شامل دو بڑی جماعتوں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے مابین اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے اتفاق اور عدم اتفاق کے دھوپ چھائوں کی کیفیت مکمل طور پر واضح نہیں ہو رہی، درمیان میں ایم کیو ایم نے پرانی اور نئی مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کے انعقاد کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے، جبکہ ایک اور بیانیہ نگران حکومت کے قیام کے بعد مبینہ طور پر یہ سامنے آرہا ہے کہ ممکنہ طور پر نگران کابینہ کی مدت میں چند ماہ یا ایک سال توسیع کی بنیاد پر آنے والے انتخابات کو کم از کم ایک سال کیلئے التواء میں ڈالا جا سکتا ہے، جس کے خدشے کے پیش نظر اتحادی حکومت کی اہم جماعتوں کے درمیان اس بات پر اتفاق کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ نگران وزیراعظم کی تقریری سیاسی حلقوں سے کی جائے، جو حلقے مبینہ طور پر کسی دوسرے شعبہ زندگی سے نگران وزیراعظم کی تقریری چاہتے ہیں تاکہ انتخابات کے لئے حتمی تاریخ کے تعین کے لئے نگران وزیراعظم کا استعمال ممکن جایا جا سکے ایسا نہ ہونے پائے۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کے الیکشن کے لئے حتمی تاریخ کی تقرری الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ، ان تمام حقائق اور معاملے کے مختلف پہلوئوں پر غور و فکر کے بعد کم از کم ایک پہلو ایسا ضرور ہے جسے کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، یعنی نئی مردم شماری کی بنیاد پر نئے انتخابات کا انعقاد اور اس ضمن میں ایم کیو ایم کے خدشات کو اتنی آسانی سے نا قابل توجہ قرار نہیں دیا جا سکتا، اگرچہ ایم کیو ایم پہلے ہی نئی مردم شماری پر تحفظات بھی ظاہر کر چکی ہے اور اس کا اعتراض یہ ہے کے اندرون سندھ آبادی میں سو فیصد اضافہ کے برعکس کراچی’ حیدر آباد وغیرہ میں صرف5 فیصد اضافہ حیرت کا باعث ہے، اس کے باوجود ایم کیو ایم نئی مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کا انعقاد چاہتی ہے اور وزیراعظم شہباز شریف نے بھی پارٹی کے ایک وفد کو جس نے پارٹی کنونیر خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں گز شتہ روز ان سے اسلام آباد میں ملاقات کی یقین دلایا کہ ابھی پرانی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کرانے کا فیصلہ نہیں ہوا، فیصلہ کب ہو گا فی الحال وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا، تاہم اگر نئی مردم شماری (جس کا ابھی تک نو ٹیفیکیشن ہی جاری نہیں ہوا) کی بنیاد پر انتخابات کرانے کا فیصلہ ہوتا ہے تو پھر اکتوبر یا نومبر میں انتخابات کسی بھی صورت میں نہیں ہو سکیں گے کیونکہ نئی مردم شماری کے اعلان کے بعد کم از کم چار سے پانچ ماہ نئی حلقہ بندیوں کو حتمی شکل دینے کے لئے درکار ہوں گے، اس لئے دیکھتے ہیں کہ نگران حکومت کی ہیئت کیا ہوگی جس کے بعد ہی آئندہ انتخابات کی تاریخ کا تعین ممکن ہوگا۔

مزید پڑھیں:  پراسرار آتشزدگی