ودھاتا کی سات سہیلیاں اور اروند کی ریوڑیاں

بات سات سہیلیوں سے آگے بڑھ کر ساتھ ریوڑیوں اور پھر ریوڑیوں کے حوالے سے اس محاورے کی یاد دہانی تک پہنچی جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں مڑ مڑ اپنوں کو’ اگرچہ ہمارے ہاں اب تک ریوڑیاں بانٹنے کی ذمہ داری”اندھوں” ہی کے ہاتھ میں ہے جبکہ جن سات ریوڑیوں کی بات ہم کر رہے ہیں ان کو باٹنے کی ذمہ داری بھارت میں عوام کی خدمت کے نام پر ”سیاست” کرنے والے نئی دہلی کے حکمران اروند کجریوال نے اٹھا کر کھلی آنکھوں سے کیا اپنے کیا پرائے سب کو نہال کر دیا ہے ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ان سات سہیلیوں کا ذکر کیاجائے جن کے ذکر سے کالم کی ابتداء کی ہے تاکہ قارئین کرام کے ذہنوں میں کوئی ابہام رہے نہ ہی سوال اٹھیں۔ دراصل سات سہیلیوں کاتذکرہ ایک بھارتی فلم ” ودھاتا ” کے ایک مشہور گانے میں یوں کیا گیا ہے کہ
سات سہیلیاں کھڑی کھڑی
فریاد سنائیں گھڑی گھڑی
اس فلم کی کہانی مشہور زمانہ ناول(بعد میں فلم بھی بنی) گاڈ فادر سے مستعارلی گئی تھی ‘ جس میں محولہ گانا بہت ہی مشہور ہوا تھا ‘ اس لئے سات ریوڑیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس گانے کے الفاظ یاد آگئے تھے ‘ خیر آگے چلتے ہیں اور بات کا رخ اروند کجریوال کی جانب موڑتے ہیں جنہوں نے سات ریوڑیاں بانٹتے ہوئے محاورے والے ”اندھے” کے برعکس ان ریوڑیوں سے عوام کی جھولیاں بھردیں اروند کجریوال سے انا ہزارے سے بھی یاد آگئے ہیں جنہوں نے چند برس قبل گاندھی جی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہی جیسی سادگی اختیار کرکے اکیلے ہی اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرتے ہوئے کرپشن کے خلاف جدوجہد شروع کی ‘ ابتداء میں ان کے چیلے چانٹوں کی تعداد اتنی نہیں تھی بلکہ ان کا مذاق ہی اڑایا جاتا تھا ‘ اور ان کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا تھا ‘ مگر ان کا عزم اور مستقل مزاجی دیکھ کر آہستہ آہستہ لوگ ان کی جانب متوجہ ہونا شروع ہو گئے تھے ‘ ایسے ہی لوگوں میں اروند کجریوال بھی تھا ‘ یہ قافلہ بھی بقول شاعر
لوگ ملتے ہی رہے اور قافلہ بڑھتا گیا
تاہم اس دوران انا ہزارے اور اروند کجریوال کے بیچ فکری سطح پر خلیج پیدا ہونا شروع ہوئی ‘ انا ہزارے کا موقف تھا کہ معاشرے میں بدلائو غیر سیاسی جدوجہد سے لائی جائے جبکہ اروند کجریوال نے ان کی سوچ سے اختلاف کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ جب تک اقتدار ہاتھ میں نہ ہو ‘ معاشرے کوتبدیل نہیںکیا جاسکتا ‘ آنا ہزارے کے ساتھ جدوجہد کے دوران اروند کجریوال بھی بھارتی عوام کے دلوں میں گھر کر گئے اور ان کی بات کوبھی عوام توجہ سے سنتے ‘ اپنی جدوجہد کو کامیاب کرنے کے لئے اروند نے انا ہزارے سے علیحدہ ہو کر آپ عوام پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنائی اور نئی دہلی کے انتخابات میں چھلانگ لگائی یہ غالباً 2016ء یا آگے پیچھے کی بات ہے ‘ انتخابات میں عوام نے انہیں ہاتھوں ہاتھ ضرور لیا مگر پہلی بار انہیں معمولی اکثریت اور کچھ دیگر چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت کرنے کاموقع تو ملا لیکن وہ اپنے منشور کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے کہ ان کے مخالفین بڑے گھاگ اور تجربہ کار سیاسی لوگ تھے ‘ جو ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرکے ان کے تمام منصوبے ناکامی سے دو چار کر رہے تھے ‘ صورتحال سے تنگ آکر انہوں نے ریاست کے وزیر اعلیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے کر اسمبلی تحلیل کردی اور عوام کے پاس چلے گئے اب کی بار عوام نے انہیں بڑی زبردست پذیرائی دیتے ہوئے دوبارہ اقتدار پرلا بٹھایا جس کے بعد انہوں نے اپنے پارٹی منشور کو کامیابی سے روبہ عمل لا کر عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنا شروع کر دیئے جبکہ عوام کو بھی یہ احساس ہوا کہ ان کے مسائل بڑی حد تک ان کے گھروں کی دہلیز پرحل ہو رہے ہیں ‘ ریاستی عوام کے حالات بدلنا شروع ہوئے تو ہندوستان کی دوسری جماعتوں کے اندرایک خوف سا پیدا ہونا شروع ہوا ‘ اس کے بعد آنے والی ایک اور مدت کے لئے بھی آپ عوام پارٹی کو پہلے سے بھی زیادہ اکثریت دلوا کر اروند کجریوال کو مزید سہولتوں کی فراہمی کا حق دیا اور انہوں نے اس موقع کو ضائع کرنے کی بجائے غریب عوام کو نہال کردیا’ ان دنوں اروند کجریوال کی ایک تقریر سوشل میڈیا پر بڑی وائرل ہے جس میں موصوف اپنی حکومت کی جانب سے عوام کے لئے سات ریوڑیوں کا تذکرہ کر رہے ہیں ان ریوڑیوں کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ انہوں نے ریاست(صوبے) میں بجلی بالکل مفت کر دی ہے ‘ نمبر دو انہوں نے شکشا(تعلیم) کے حوالے سے دلی میں ہزاروں اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرکے امیروں اور غریبوں کے بچوں کویکساں سطح کی تعلیم بالکل مفت کر دی ہے اور بقول ان کے اب امیروں اور غریبوں ‘ اعلیٰ سرکاری عہدیداروں ‘ ججو ‘ ڈاکٹروں وغیرہ وغیرہ کے بچے ان سکولوں میں ایک ہی ڈیسک پر ایک ساتھ بیٹھ کر ایک ہی کریکولم کے تحت تعلیم حاصل کریں گے ‘ تعلیم کا ایک ہی نظام رائج کردیاگیا ہے ‘ نمبر تین علاج سب کے لئے مفت ‘ بڑے ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ محلے کی سطح پر ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا جال بچھا کر صحت کی سہولیات یکساں کردی ہیں اس حوالے سے بھی ذات پات کی کوئی تمیز نہیں رکھی جائے گی ‘ نمبر چار صاف پانی سب کے لئے ‘ اس منصوبے کے تحت ہر شخص کو پینے کا صاف پانی بلا تحضیص مہیا کرنے کا منصوبہ شروع کر دیا گیا ہے ۔ نمبر پانچ ۔ہر قسم کی ٹرانسپورٹ خواہ سرکاری بسیں ہوں یا نجی ملکیت کی ٹرانسپورٹ ہو ‘ ان میں (مہیلائوں) یعنی خواتین کو مفت سفر کی سہولت مہیا کردی گئی ہے ‘ نمبر چھ ۔ہر گھر کے بزرگوں یعنی بڑے بوڑھوں ‘ مردوں اور خواتین کو مذہبی مقامات جیسے ایودھیا ‘ دوارکا اوردیگر مذہبی مقامات کی یاترا سرکاری سطح اور سرکار کے خرچ سے کروانے کا اعلان کر دیاگیا ہے ‘ ساتویں اور(فی الحال) آخری ریوڑی ریاست کے بارہ لاکھ بچوں کو روزگار دینے کے بعد اب مزید لوگوں کو روزگار دینے پرکام شروع کر دیاگیا ہے ‘ یعنی روزگار سب کے لئے ‘ اروند کجریوال کی تقریر کے دوران عوام کی جانب سے جس طرح کی پذیرائی تالیوں کی گونج میں چھپی حقیقت کو تلاش کرناکتنا آسان ہے کہ بقول ا روند بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی ان پر سخت ناراض ہیں بلکہ ہونا بھی چاہئے کیونکہ سات ریوڑیوں سے جھولیاں بھرنے والے دہلی کے عوام کے بعد اگر یہ سلسلہ بھارت کے دیگر صوبوں(ریاستوں) تک پھیلانے کا پروگرام اروند کجریوال کی سربراہی میں ان کی جماعت عام آدمی پارٹی نے آگے بڑھایا تو بھارت کی دیگر سیاسی جماعتوں کا کیا حشر ہو سکتا ہے یہ کوئی اتنا مشکل سوال تو نہیں۔ کیونکہ اروندکجریوال یہی تو کہہ رہا ہے کہ
یہ مانا میں کسی قابل نہیں ہوں ان نگاہوں میں
براکیا ہے اگر یہ دکھ یہ حیرانی مجھے دیدو

مزید پڑھیں:  بار بار کی خلاف ورزیاں