مشرقیات

سلام ایک متبرک اور دعائیہ کلمہ ہے ، سلام کرنے والا اپنے ساتھی کو یہ اطمینان دلاتا ہے کہ تم میرے ہاتھ پیر، اعضا و جوارح حتیٰ کہ زبان سے بھی جانی و مالی ہر اعتبار سے مامون ہوں، گو یا سلام اظہار ہمدردی کے ساتھ ادائے حق بھی ہے کہ سلام کرنے والا اپنے مومن بھائی کے لیے خیر و بقا کی دعا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملاقات کے وقت سلام میں پہل کرنے والے کے لیے احادیث میں بہت فضیلت وارد ہوئی ہے۔
ارشاد نبوی ہے:ابوامامہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: ”لوگوں میں اللہ رب العزت کی رحمت کے قریب وہ شخص ہے جو سلام میں پہلے کرے۔ (مشکواة المصابیح) ایک اور روایت میں نبی اکرمۖ کا ارشاد ہے: ابوامامہ سے مروی ہے کہ آپۖ سے پوچھا گیا: یا رسول اللہ ا جب دو آدمی ملاقات کریں تو ان میں سے کون سلام میں پہل کرے؟ تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: جو ان دونوں میں اللہ کی رحمت کے سب سے زیادہ قریب ہے”۔(جامع الترمذی) مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کو اللہ تعالی کی رحمت سے قرب حاصل کرنا ہو اور رحمت خداوندی سے زیادہ حصہ چاہتا ہو، وہ ملاقات کے وقت سلام میں پہلے کرے، وہ دوسرے کی بہ نسبت اللہ تعالی کی رحمت کے زیادہ قریب ہوگا ، دونوں روایات میں ابتدا بالسلام کو رحمت سے قرب حاصل کرنے کا سبب بتلایاگیا ہے، جس سے سلام کی اہمیت و فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں ارشاد ہے کہ سلام میں ابتدا کرنے والا کبر سے بری ہے۔ یہ روایت بھی سلام کی فضیلت کو بتلاتی ہے۔ سلام کرنے کا اجر و ثواب اور جواب کا طریقہ سلام کرنے کا اجر و ثواب اور جواب کا طریقہ سلام کو رواج دینے کے بارے میں بڑی فضیلت آئی ہے۔
عمران بن حصین سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرمۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے السلام علیکم کہا اور بیٹھ گیا، آپۖ نے اس کا جواب دیا اور فرمایا: اس کے لیے دس نیکیاں ہیں۔ پھر دوسرا آدمی آیا اور اس نے ”السلام علیکم” ورحمتہ اللہ کہا۔ آپۖ نے اس کو جواب دینے کے بعد فرمایا: ” اس کے لیے بیس نیکیاں ہیں۔ پھرایک اور آدمی آیا، اس نے اسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کہا تو آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: اس کے لئے تیس نیکیاں ہیں۔ (جامع الترمذی ) مذکورہ روایت میں نبی اکرمۖ نے ہر شخص کے لیے ثواب کی ایک مقدار مقر رفرمائی اور جس شخص نے جس قدر اچھے انداز میں سلام کیا، آپ نے اس کے بقدر اس کے لیے نیکیوں کی تعین فرمائی ۔ معلوم ہوا کہ سلام کرنے والے کا اجر و ثواب اس کے طریقہ سلام پر موقوف ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے ملنے والے کو اچھی طرح سلام کرے، تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا مستحق ہو سکے اور رہا جواب دینے والے کا معاملہ تو یادر ہے کہ سلام کرنا مسنون ہے ،مگر اس کا جواب دینا واجب ہے اور قرآن کریم کے فرمان کے مطابق جواب یا تو سلام کے ہی مقدار اور معیار کا ہو، یعنی اس کے مثل ہو یا پھر اس سے بہتر ہو، قرآن کریم میں اللہ تعالی کاارشاد گرامی ہے(ترجمہ) جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر سلام کرو یا اس کو لوٹا دو۔

مزید پڑھیں:  معزز منصفوں !تصحیح لازم ہے