غیرت ایمانی کا مظاہرہ

عراقی دارالحکومت بغداد میں تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مشتعل مظاہرین نے سویڈن کا سفارت خانہ جلا ڈالا جبکہ عراقی وزیراعظم نے سویڈن کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ سویڈن کے بغداد میں موجود سفیر کو فوری طور پر عراق چھوڑنے کا حکم دیاگیا ہے۔ سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی پر عراق کے دارالحکومت بغداد میںسینکڑوں مشتعل افراد نے سویڈن کے سفارت خانے پر دھاوا بول کر اسے جلا دیا۔ مشتعل مظاہرین نے وسطی بغداد میں سویڈن کے سفارت خانے کے کمپائونڈ کی دیواروں کو توڑ کر سفارت خانے کو آگ لگا دی۔ عراق میں مشتعل افراد کی جانب سے یہ مظاہرہ سویڈن میں ایک اور قرآن کی بے حرمتی کی اجازت دیئے جانے پر کیا گیا ہے۔ اس سے قبل بھی گزشتہ ماہ ایک عراقی نژاد سویڈش شہری قرآن پاک کی بے حرمتی کر چکا ہے۔سویڈن کی حکومت نے قبل ازیں گزشتہ واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کرکے آئندہ اس طرح کے اقدامات کی روک تھام کا عندیہ دیا تھا مگر نہ صرف اس میں ناکام ہوئی بلکہ اس طرح کے ناپاک ارادے کو دوسری مرتبہ بھی روکنے کی سنجیدہ سعی تو درکنار الٹا اس کی اجازت دی گئی اس طرح کے واقعات میں سویڈش حکومت کا رویہ انتہائی مکروہ اور قابل اعتراض ہے مسلم حکمرانوں میں کوئی صلاح الدین ایوبی اور حجاج بن یوسف ہوتے تو وہ جہاد کا راستہ اختیار کرتے اور مظلوم لڑکی کی مدد کے لئے فوج روانہ کرنے کی طرح کا کوئی اقدام کرتے اب امت مسلمہ کی پاتال میں گری حالت کسی سے پوشیدہ نہیں کم از کم سفارتی تعلقات کا انقطاع اور سویڈن کے سفیر کو ملک بدر کرنے کی ہی ہمت کرنی چاہئے تھی مگر افسوس اب تک صرف عراق ہی میں اس قدر حمیت کا مظاہرہ کیا گیا عراق میں عوامی دبائو اورسویڈن کے سفارتخانے جا کر عملی ا حتجاج ریکارڈ کرنے کا عمل قابل پیروی اس لئے ہے کہ اس وقت کمزور سے کمزور اقدام یہی ممکن ہے لیکن اسلام آباد میں حکومت اس کی بھی گزشتہ احتجاج میں اجازت نہ دی جبکہ احتجاجیوں نے پرامن رہ کر اپنی ذمہ داری پوری کی۔توڑ پھوڑ اور املاک کانقصان کرنے کی حمایت نہیں کی جا سکتی مگر وطن عزیز میں بڑے پیمانے پراحتجاج اور اشتعال کاعملی اظہار دیکھنے میں نہ آنا منجملہ مسلمانان پاکستان کی اپنے دین اوراسلامی شعائر و مقدسات بارے کمزور سے کمزور ایمان کا مظاہرہ ہے دشمن اسی کا منتظر ہے کہ مسلمانان عالم کے جذبات کب ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بار بار اس طرح کے واقعات کااعادہ کرکے مسلمانوں کی دینی حمیت کو للکارا جاتا ہے صرف جمعہ کے خطبات میں مذمت کافی نہیں امت مسلمہ کو اس مذموم عمل کی روک تھام کے لئے قوت بازو تقریر و تحریر احتجاج سبھی طریقوں کو آزمانا ہو گا اقوام متحدہ اور عالمی اداروں و مہذب ہونے کی دعویدارممالک کا اس طرح کے واقعات میں کردار و عمل کا تضادات کا شکار ہونا اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے عملی طور پر کوشاں نہ ہونا افسوسناک امر ہے اس طرح کے واقعات سے متاثرہ نوجوانوں کا انتقام کی طرف مائل ہونا مجبوری ہو گی پھر اس پربھی مغرب واویلا نہ کرے۔

مزید پڑھیں:  پراسرار آتشزدگی