مصنوعی ذہانت اورموجود نظام زندگی کو لاحق خطرات

مصنوعی ذہانت ہمارے لیے نئی شے ہے لیکن امریکہ میں انیس سو پچاس کی دہائی میں اس پر باقاعدہ کام کا آغاز ہوگیا تھااس سے پہلے اس کا تصور بیسویں صدی کے شروع میں سائنس فکشن سے ہوتا ہے جس میں کئی ایک ناول اور کہانیاں لکھی گئیں جن میں مشینوں کو انسانوں کی طرح کام کرتے دکھایا گیا انیس سو پچاس میں امریکہ میں سائنس دانوں ، ریاضی دانوں اور فلسفیوں کی ایک پوری نسل تھی جومصنوعی ذہانت پر کام کررہی تھی اس دور میں ایک نوجوان برطانوی پولی میتھ ایلن ٹیورنگ جس نے باقاعدہ مصنوعی ذہانت کے ریاضیاتی امکان کو تلاش کیا اس نے دیگر محققین کو مشورہ دیا کہ اگر انسان مسائل کو حل کرنے کے لیے اور فیصلے کرنے کے لیے دستیاب معلومات کے ساتھ ساتھ عقل کا بھی استعمال کرتے ہیں تو مشینیں بھی ایسا کرسکتی ہیں ۔ان کے مقالے نے ایک نئی بحث کو جنم دیا اور پھر ایک پوری نسل کوشش میں لگی رہی کہ وہ اس کو کس طرح ممکن بنائیں اگر چہ رفتار بہت سست تھی اور اس کے کئی وجوہات تھیں ،اس دور میں جو کمپیوٹر استعمال ہوتے تھے وہ کمانڈز کو سٹور نہیں کرسکتے تھے صرف کمانڈز پر عمل کرتے تھے ۔دوسرے لفظوں میں کمپیوٹر کو بتایا جاسکتا تھا کہ کیا کرنا ہے لیکن وہ یاد نہیں رکھ سکتے تھے کہ انہوں نے کیا کیا پھر اس دور میں کمپیوٹنگ انتہائی مہنگی تھی انیس سو پچاس کی دہائی میں ایک کمپیوٹر اگر لیز پر لینا ہوتا تو اس کے لیے دو لاکھ امریکی ڈالر دینے پڑتے تھے اور کمپیوٹر کا حجم بھی بہت بڑا ہوا کرتا تھا ۔چند بڑی یونیورسٹیوں اور بڑی کمپنیوں کے پاس یہ مشین دستیاب تھی جس تک عام اسکالر رسائی حاصل نہیں کرسکتا تھا ۔ اس دور میں یہ تو ثابت ہوگیا تھا کہ مصنوعی ذہانت یعنی مشین انتیلجنس ایک قابل عمل کام ہے مگر اس میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا ۔ انیس سو پچپن میں ایک پروگرام شروع کیا گیا جسے لاجک تھیوریسٹ کا نام دیا گیا اس پروجیکٹ میں تین ماہرین ایلن نیویل ، کلف شا اور ہربرٹ سائمنز نے کام شروع کیا یہ دنیا میں مصنوعی ذہانت پر پہلا باقاعدہ کام کا آغاز تھا اس منصوبہ کا فریم ورک ١٩٥٦ میں ایک کانفرنس میں پیش کیا گیا اسی پر اگلے بیس برس تک دنیا بھر کے مختلف محققین نے کام کیایوں ١٩٥٧سے ١٩٧٤ تک مصنوعی ذہانت نے ترقی کی اور آخر کار ماہرین وہ الگورتھم بنانے میں کامیاب ہوگئے جس کے ذریعہ سے مشین کسی چیز کو سٹور کرنے کے قابل ہوگئی اور یہ مشین اب کافی سستی اور زیادہ قابل رسائی بھی ہوگئی ۔پھر ماہرین نے اس عمل پر کام شروع کیا کہ مشین کسی زبان کو نقل کرسکے اور اس کا ترجمہ کرسکے اس کام کے لیے قدرتی زبان کی پروسسینگ ، تجریدی سوچ اور خود شناسی کا ایک طویل سفر تھا جسے ماہرین نے بے انتہا مشکلات کے ساتھ طے کیا اور وہ وقت بھی اسی کی دہائی میں آیا کہ جاپانی حکومت نے اپنے ففتھ جنریشن کمپیوٹر پروجیکٹ کا آغاز کیا اور تاریخ کی سب سے بڑی فنڈنگ اسے دی ، جاپانی حکومت کے فراہم کردہ چارسو ملین امریکی ڈالر سے اس کام میں بہت تیزی آئی مگر اس فنڈنگ کے لیے جو اہداف مقرر کیے گئے تھے وہ مکمل حاصل نہ ہوسکے یہ فنڈنگ بند ہوگئی مگر اس نے بنیادی نوعیت کے تمام مسائل حل کردئیے تھے اب حکومتی سر پرستی سے ہٹ کر دیگر لوگوں اور سرمایہ کاروں نے اس میں دلچسپی لینا شروع کیا اور ١٩٩٠ سے ٢٠٠٠ تک بہت سارے اہم اہداف تک ماہرین کو رسائی مل گئی تھی ، ١٩٩٧ میں شطرنج کے اس وقت کے عالمی چیمپیئن اور گرینڈ ماسٹر گیری کاسپروف کو آئی بی ایم کے ڈیپ بلیو نے شکست دی جو ایک شطرنج کھیلنے والا سافٹ وئیر تھا یہ وہ دن تھا جب دنیا مصنوعی ذہانت سے پہلی بار عملی طور پر آشنا ہوئی اسی برس اسپیج ریگینشن سافٹ وئیر جو ڈریگن سسٹمز نے تیار کیاتھا ونڈوز پر لانچ کیا گیا یہ ایک اور بڑا قدم تھا اس سے لوگوں نے سوچنا شروع کیاکہ مستقبل قریب میں مشین بہت کچھ کرسکے گی ۔یہ وہ مختصر سی تاریخ ہے جو مصنوعی ذہانت کو سمجھنے کے لیے میں نے آپ کے سامنے رکھی ، آج ہم ”بگ ڈیٹا” کے دور میں جی رہے ہیں جہاں معلومات ایک جگہ جمع ہیں اور جو معلومات نہیں ہیں وہ بہت تیزی کے ساتھ جمع ہورہی ہیں ۔ اور ان معلومات کی بنیاد پر مشین انسان سے زیادہ تیزی اور مہارت کے ساتھ ان کے استعمال پر قادر ہورہا ہے ۔ اس سے انسان کے کام آسان ہورہے ہیں اور اسے سہولت ملتی جارہی ہے وہ بہت سارے کام جو گزشتہ دو صدیوں سے انسان اپنے ہاتھوں یا عقل کو بروئے کار لاکر کررہاتھا وہ اب مشین خوش اسلوبی کے ساتھ کررہی ہے ، انسانوں سے مشین زیادہ بہتر طریقے سے مریضوں کا آپریشن کررہی ہیں ، یہ ایک طرف بہت ہی خوش آئند بات ہے مگر دوسری طرف اس کے بہت سارے مضمرات بھی ہیں جو انسان کی بقا کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں اور اربوں لوگوں کو روزگار سے محروم کرسکتے ہیں ، میڈیا پر اگلے دس برس بعد انسانوں کی ضرورت اسی فیصد کم ہوجائے گی اس لیے کہ سارے کام مشین کریں گے یہاں تک کہ خبریں پڑھنے ، تجزیہ کرنے تک کا کام مشین کریں گے ۔اس سے ہر شعبہ میں لوگ بے روز گار ہوجائیں گے ، دنیا کی مشہور کمپنی آئی بی ایم نے گزشتہ دنوں اٹھ ہزار ورکرز کو کام سے نکال دیا اس لیے کہ مشینی ذہانت کی وجہ سے ان کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی ۔ چند دن پہلے ہالی ووڈ میں اس لیے ہڑتال کی گئی تھی کہ وہاں اب ادکاروں کو کام نہیں مل رہا سب مصنوعی ذہانت سے کام چلا رہے ہیں ،مصنوعی ذہانت کی تین سطحیں ہیں پہلی سطح پر جسے اے این آئی کہا جاتا ہے یعنی تنگ ذہانت وہ مصنوعی ذہانت ہے جس کے ذریعہ کوئی طے شدہ کام مصنوعی ذہانت کے ذریعہ سرانجام دیا جاتا ہے اور مشین صرف اس کام کے دائرہ کار تک خود کو محدود رکھتی ہے اس کے علاوہ مشین کوئی دوسرا کام نہیں کرسکتی یعنی اگر مشین کو تاش کھیلنے کا کام سوپنا گیا ہے تو اس کے علاوہ کوئی دوسر اکام وہ نہیں کرسکتی اس بنا پر اس کو کمزور مصنوعی ذہانت کا نام دیا گیا ہے ۔دوسری سطح اس مصنوعی ذہانت کی ہے جسے اے جی آئی کہتے ہیں یعنی مصنوعی جنرل انٹیلیجنس،اس سطح پر مصنوعی ذہانت کی قدرت انسان کے برابر آجاتی ہے یعنی وہ سارے کام جو انسان کرتا ہے وہ مشین کو سکھائے جائیں اور پھر مشین اس صلاحیت کا استعمال کرکے مزید اس طرح کے دوسرے کام خود سے کرے ۔ تیسری سطح اے ایس آئی ہے یعنی مصنوعی ذہانت کی سپر انٹیلجنس سطح یہ وہ سطح ہے جہاں سے مشینی ذہانت انسان کی ذہنی صلاحیت سے آگے کا سوچ سکتی ہے اور اس کو بروئے کار لاکر کچھ نیا اور انوکھا بھی کرسکتی ہے جو ابھی تک انسان نے نہیں کیا ۔ریکوریوسیو سلف امپرومنٹ کے ذریعہ مصنوعی ذہانت اپنے آپ کو بہتر کرتی چلی جائے گی اور اس کی آخری حد کیا ہوگی اس کے بارے میںانسان تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ مصنوعی ذہانت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ اب طالب علم پڑھیں گے نہیں اس لیے کہ انہیں محنت کی ضرورت ہی نہیں ہے وہ اے آئی کے ذریعہ کوئی بھی سوال منٹوں میں حل کرسکتے ہیں ، سکینڈوں میں اسائمنٹ تیار کرسکتے ہیں ، سکینڈوں میں پورا تھیسس تیار کرسکتے ہیں ، ہر طرح کے نقشے بناسکتے ہیں غرض اب انہیں کسی محنت کی ضرورت نہیں رہے گی اس طرح جو مقصد تعلیم دینے کا ہے وہ ختم ہوجائے گا یوں چند دہائیوں میں یا اس سے بھی کچھ پہلے انسان نے جو ذہنی اور عملی ترقی کی ہے اس عمل سے دست بردار ہوجائے گا اور سارا کام مشینوں کے حوالے کردے گا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ٩٠ فیصد انسان بھوک اور افلاس کی زندگی کی طرف واپس چلے جائیں گے ۔ ایک اور خطرہ جو زیادہ تشویشناک ہے وہ یہ کہ منفی سوچ کے حامل لوگ مصنوعی ذہانت کا سہارا لیکر بہت بڑی تباہی پھیلا سکتے ہیں ۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم کیا کررہے ہیں ۔ کیا کسی سکول کالج یا یونیورسٹی میں اس پر کوئی بات کرتا ہے یا اسے سمجھنے کی کوشش کررہا ہے کیا کسی ٹی وی یا اخبار نے اس سلسلے میں کوئی آگاہی کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ دنیا علمی ترقی میں کہاں پر ہے اس کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں اس کی ایک بھی خبر نہیں ہے اس سے آپ ہماری ترجیحات اور ہماری تعلیم اور ہماری تنزل کے تانے بانے خود بنُ سکتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  پاکستان کو ایک زرعی مُلک رہنے دیں