حدہواکرتی ہے ہرچیزکی اے بندہ نواز

گزشتہ چاردہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ پہلے ضیاء الحق دور حکومت کی غلط پالیسیوںکی بدولت پاکستان پرٹڈی دل کی صورت یلغارکرنے والے بن بلائے مہمانوںکے کرتوت پاکستان کابچہ بچہ جانتاہے،افغان جہاد کے نام پرافغان سرزمین چھوڑکرہمسایہ ممالک خصوصاًپاکستان میں پناہ لینے والے افغان مہاجرین کے صاحبان ثروت خاندانوںاورپڑھے لکھے افرادنے پاکستان کولانچنگ پیڈبناکربڑی تعدادمیںزیادہ ترمغربی ممالک میںپناہ لی تاہم ان کی بڑی اکثریت نے خصوصاًصوبہ خیبرپختونخوااور کم تعدادمیں سندھ اور پنجاب کومستقل پناہ گاہ بناتے ہوئے سکونت اختیارکرکے کاروباراور کچھ پیشہ وارانہ سرگرمیوں کا مرکز بنا کرمقامی باشندوںکااستحصال کرناشروع کردیا،جبکہ ان میں موجود”قانون شکن اور جرائم پیشہ ”افرادنے مقامی ناپسندقانون شکنوںکے ساتھ ملکرایسے گینگ بھی بنالئے جن کی سرگرمیاںکسی بھی طورنہ ملکی نہ ہی عالمی قوانین کے لحاظ سے قابل قبول گردانی جاسکتی ہیں،پشاورکے شہریوں نے بارہااس صورتحال کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انہیںمہاجرکیمپوںتک محدودرکھنے کے مطالبات کئے،یہاں تک کہ مرحوم ارباب جہانگیرکے دورحکومت میں شہری عملاًاحتجاج کرتے ہوئے بپھرکرسڑکوںپرنکل آئے،صورتحال کی نزاکت کوبھانپتے ہوئے صوبائی انتظامیہ نے بہ امرمجبوری چندروزکیلئے افغان مہاجرین کوکیمپوںمیں منتقل کر کے ان کی ہرقسم کی سرگرمیوں پرپابندی عائد کردی تھی،تاہم بعدمیںحالات معمول پرآتے ہی یہ لوگ بھرشہرمیں دندناتے نظرآنے لگے،اب اس وقعے کوگزرے ہوئے بھی کئی برس بیت چکے ہیں،جبکہ اس دوران افغانستان میں بھی حالات تیزی سے بابارتبدیل ہونے کی وجہ سے اورصوبہ خیبرپختونخوامیں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے سے ان مہاجرین کے مزیدقیام پرسوالات اٹھتے رہے ہیں،اوراب انہوں نے ہماری اندرونی سیاست میں دخیل ہونے میںبھی کوئی کسرنہیں چھوڑی،ابھی14اگست کوضلع ہزارہ میںکچھ مہاجرین کی جانب سے پاکستان کے خلاف نفرت انگیزنعروںکے ساتھ پاکستان کے جھنڈے کی بے حرمتی پران مہاجرین کی گرفتاری کی خبروںکی بازگشت ابھی تھمی نہیں تھی کہ گزشتہ روزحیات آبادمیںجشن افغانستان کے نام پرمہاجرین کی جانب سے سڑک بلاک کرکے مظاہرے کے دوران سڑک واگزارکرنے والے پولیس اہلکاروںپرپتھراؤکی خبریںسامنے آگئی ہیںجویقینا قابل تشویش ہیں،ہم اس سے پہلے انہی کالموںمیں ان”زبردستی گھس آنے والے مہمانوں”کی ناکردینوںپرروشنی ڈالتے ہوئے متعلقہ حکام اور پالیسی سازوںسے گزارش کرچکے ہیں کہ بس بہت ہوگئی ہے،اب ان کواپنے وطن کی راہ دکھاکرواپس بھیج دیاجائے مگرنقارخانے میں طوطی کی صداہمیشہ صدابہ صحرثابت ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے