مشرقیات

اسلام کے مطابق ہاتھ سے کمانے والا اللہ کادوست ہے۔ہاتھ سے کمانے والا کون ہے؟ کسب یا پیشہ سے مراد ایک ایسا روزگارِزندگی یعنی حرفہ ہے جس کو اختیارکرنے کیلیے مشق اور تعلیم کیساتھ ساتھ خصوصی معلومات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔اہلِ عرب کا مشہور پیشہ گلہ بانی تھا جسے عام زبان میں چرواہا اور ہمارے ہاں بکروال کہاجاتاہے۔انبیاء اکرام نے اپنے ہاتھ سے مختلف کام کیے۔ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کھیتی باڑی کرتے تھے حضرت نوح علیہ السلام نے بڑھئی کاکام کیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کھیتی باڑی۔حضرت ادریس علیہ السلام درزی کا۔حضرت شعیب علیہ السلام جانور پالنے کا۔حضرت ہود علیہ السلام تجارت اور حضرت سلیمان علیہ السلام پتوں سے پنکھے اور زنبیلیں بنانے کاکام کرتے تھے اور ہمارے نبی محمدکریم ۖنے بکریاں بھی چرائیں اور تجارت بھی کی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ برصغیر میں پیشے کے لحاظ سے اونچ نیچ حد سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ عرب یا یورپ میں پیشے کے لحاظ سے نفرت وحقارت کا رواج نہیں لیکن ہمارے ہاں یہ تفریق بہت پرانی ہے اور دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ہندوستان میں ذات پات کا یہ نظام تین ہزار سال پرانا ہے ہندو قوانین کی قدیم ترین کتاب”مانوسمرتی”کے مطابق ہندوؤں کی چار مشہور ذاتیں ۔برہمن ۔کھشتری ۔ویش اور ۔شودر ہیں۔بعض مؤرخین کے نزدیک جب آریائی نسل کے لوگ ہندوستان میں وارد ہوئے تو انہوں نے ہندوستان کے قدیمی مقامی باشندوں یعنی دراوڑ اور کول نسل کو غلام بنانے کیلیے ذات پات والے نئے مذہب ہندومت کی بنیاد رکھی اور یوں اس تقسیم کی بدولت آریائی مقامی لوگوں پر حکومت کرنے میں کامیاب رہے۔اس وقت سے کمھار۔لوہار۔ نائی۔سنار۔بھانڈ۔دھوبی۔تیلی اور چمار وغیرہ پیشے کے لحاظ سے پہچانے جانے لگے یہ ہندوستانی قدیم پیشے سمجھے جاتے ہیں البتہ قصاب اور درزی وغیرہ ہندوؤں کے پیشے نہیں یہ پیشے مسلمانوں کے ساتھ ہی ہندوستان میں آئے۔جب برصغیر میں مسلمانوں کی آمد ہوئی تو چھوٹی ذاتوں کے لوگ جوق درجوق اسلام قبول کرنے لگے اس کی وجہ اسلام کی مواخات و مساوات تھی جب مختلف پیشوں کے ہندو مسلمان ہوئے تو اپنے خاندانی پیشے کی بنا پر مسلمان معاشرے میں بھی یہ نومسلم اسی پیشے سے ہی پہچانے جاتے تھے یوں مسلم معاشرہ بھی اس تفریق کاشکار ہوا جو اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف تھی اسلامی تعلیمات کے مطابق تو
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نا کوئی بندہ رہا نا کوئی بندہ نواز
اسی طرح ہندومسلم آپسی میل جول کی وجہ سے مسلمانوں نے بھی بہت سے ہندوؤں والے پیشے اختیار کیے جس وجہ سے بطور پیشہ کے پہچان مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔مسلمان صوفیائے کرام نے ذات پات کی اس تفریق کے خلاف بھرپور آوازاٹھائی بابابلھے شاہ نے فرمایا
چل بلھیا اتھے چلیے جتھے ہوون سارے انے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھے نہ کوئی سانوں منے
حضرت شاہ حسین لاہوری رحمت اللہ علیہ نے ایک کافی میں خود کو جولاہا کہا ایک اور بزرگ نے ”لوہارنامہ”لکھا جس میں انہوں نے اس پیشہ یعنی آہن گری کو پیغمبرانہ پیشہ کہا۔بقول ڈاکٹرعاصمہ ” پنجابی فقیروں اور درویشوں نے ”کسب نامہ” میں پیشوں کی بڑائی بیان کی ہے”۔اسلام پیشے،منصب اور نسب کی بنیاد پر تفاخر کی نفی کرتا ہے۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو