موسمیاتی حالات کے تقاضے فراموش نہ ہوں

یہ ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے کہ ہم اور ہماری حکومت و انتظامیہ سبھی کسی مسئلے اور موضوع پر اسی وقت ہی بات کرنے لگتے ہیں جب بلا سرپہ آکھڑی ہو اور پانی سرسے اونچا ہونے لگے اس کے بعد رات گئی بات گئی کا دور چلتا ہے کچھ ایسا ہی شدید بارشوں اور سیلاب کے حوالے سے ہو رہا ہے ابھی ایک ماہ سے بھی کم عرصہ قبل ہم اس بارے میں بات کر رہے تھے حکومت اور انتظامیہ منصوبہ بندی و تدارک کے سچے جھوٹے وعدے کر رہی تھی کاربن کے استعمال میں کمی لانے اور گرین انرجی کے استعمال کی ضرورت پر زور دیا جاتا رہا متاثرین کی امداد و بحالی سڑکوں کی بحالی پر توجہ کا تاثر مل رہا تھا لیکن جیسے ہی مون سون کا اختتام ہوا بارشوں نے معمول کی صورت اختیار کرلی تو اب ہمیں یاد بھی نہیں کہ اس طرح کے حالات سے دو چار ہوئے تھے اور اگلے سال مزید اس طرح کی صورتحال پیش آسکتی ہے ہماری منصوبہ بندی اور یادداشت کی کمزوری کی اس وجہ سے ہی تو ہم وقت آنے پر مشکلات اور حالات سے نمٹنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے حکومت کا بینہ اور سرکاری حکام کو دور اندیش ہونا چاہئے بارش سے پہلے چھت کا انتظام کر لینا چاہئے ایک عام عوامی محاورہ ہے اگر منصوبہ ساز اتنے کورے بن جائیں کہ وہ عوامی سطح کی اس دانش جتنی سوچ بھی نہ اپنا سکیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو اب تک ہوتا آیا ہے اور خدشہ ہے کہ ایسا ہی ہوتا رہے گا ابھی بارش اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات اتنے بھی پرانے نہیں ہوئے کہ ان کوبھلا دیاجائے کیونکہ اس وقت بھی چترال اور شمالی علاقہ جات میں تباہ شدہ بنیادی اساس کی بحالی نہیں ہوئی سڑکیں بہہ چکی ہیں اور متاثر ہونے والے افراد کو معاوضہ نہیں ملا جب حال کا یہ حال ہو تو آئندہ کی منصوبہ سازی اور تدارک کے اقدامات کا تصور ہی عبث ہو گا ماحولیاتی آلودگی اور موسم کی تباہ کاریوں کو اگر چہ جدید دنیا کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں البتہ اس کی وجوہات کا علم اور اس کی شدت میں اضافہ ضرور ہوا ہے جس کے باعث انسان اس طرف متوجہ ہوا ورنہ بات بڑی پرانی ہے کیونکہ انسان کی معلوم تاریخ سے ہمیں قدرتی آفات کا معمول ہونے کا علم ہوتا ہے قدیم روم یا مصر برصغیر پاک و ہند میں یا پھر یورپ کے علاقے میں بہت سے شہروں میں خشک سالی ‘ سیلاب اور سردیوں کی سختی اور ایسی سردی کہ خون جم جائے اور اعصاب سن ہوں سبھی قسم کے حالات سے بنی نوع انسان کو واسطہ پڑتا آیا ہے اور وہ اس کے مطابق رہن سہن اور جینا سیکھتا آیا ہے رفتہ رفتہ انسانی منصوبہ بندی میں بھی بہتری آتی گئی اور وہ قدرتی حالات سے نمٹنے اپنے بچائو اور تحفظ کے ساتھ ساتھ ان حالات سے نمٹنے کے بھی ا قدامات اور طریقہ ایجاد کرتا گیا آج بڑے ممالک میں صورتحال کافی بہتر ہے اور تسلی بخش ہے یہ ہمارا ہی قصور ہے کہ ہم ان سے سیکھنے اور ان کی طرح کے اقدامات پر توجہ نہیں دیتے وسائل کا ضیاع تو ہماری روایت ہی بن چکی ہے البتہ قدرتی حالات اگر اتنے بگڑ جائیں کہ عذاب و آزمائش کی شکل اختیار کر لیں تو پھر ہوا آگ اور پانی کی طاقت و شدت کا مقابلہ بڑے بڑوں کے بس کی بات نہیں رہتی املاک اور جان و مال دونوں کا تحفظ مشکل ہو جاتا ہے اور جان بچانے ہی کو غنیمت جانا جاتا ہے کبھی تو اس کا بھی موقع نہیں ملتا لیکن بہرحال آج دنیا بھرمیں اس طرح کے قدرتی آفات اور حالات سے نمٹنے کی منظم اور مشترکہ مساعی ضرور نظر آتی ہیں آج قومی علاقائی اور مقامی حکومتوں کی طرف سے بین الاقوامی اداروں جیسا کہ آئی پی سی ‘ اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی ‘ عالمی بینک ‘ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر تربیت یافتہ سائنسدانوں ‘ انجینئرز سینکڑوں اور ہزاروں پرعزم کارکنوں اور متعلقہ شہریوں کی جانب سے تحقیق کے ایک وسیع اخذ شدہ علم کے ذریعے اس مسئلے پر توجہ دی جا رہی ہے اس کے باوجود اس سمندر کے آگے بند باندھنے کی کوئی کامیاب صورت نظر نہیں آتی اس حوالے سے جاننے کا عمل ایک مربوط طریقے سے ضرور ہو رہا ہے 19ویں صدی کے اوائل میں اس کی طرف خاص طور پر توجہ مبذول ہوئی جب زمین کے ماحول کی ساخت ‘ میکانکس اور طرزعمل کو سمجھنے کی سعی پیہم کا آغاز ہوا سائنسدان کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح اور ماحول کے درمیان تعلق کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے کوئلے کے استعمال کی کثرت کی تباہ کاریوں اور صنعتی آلودگی اور آب و ہوا پر اس کے اثرات کی بحث شروع ہوئی تحقیق ہوئی اور موسمی و ماحولیاتی حدت میں اضافے کی وجہ انسان کی سرگرمیاں نکلیں پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ زمین گرم ہو رہی ہے اور درجہ حرارت میں اضافہ قدرتی نہیں انسان کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے بہت بحث کے بعد اس ضرورت کا احساس اجاگر ہوا کہ انسانوں کو فطرت کے ساتھ تعامل اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ بالاخر 1972ء میں ماحولیاتی اصلاحات کے دور کا آغاز ہوا اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کا قیام عمل میں آیا یہ کرہ ارض پر ایک پرسکون صاف ستھرا اور قانون قدرت و فطرت کے مطابق زندگی گزارنے پر متوجہ ہونے فیصلہ کرنے اور اقدامات کرنے کی ضرورت کا نقطہ آغاز تھا ۔ اس کے بعد اختلافات اور پہلو تہی کے باوجود بہرحال پیہم مساعی ہوتی رہیں اور یہ سلسلہ جاری تو ہے لیکن یہ کافی نہیں اس لئے کہ موسمی حدت میں اضافے کا عالمی مسئلہ جس قدر سنگین توجہ طلب اور اقدامات کا متقاضی ہے اس کے مقابلے میں اقدامات کی بجائے صرف کانفرنسوں دعوئوں اور وعدوں پر اکتفا کیاجارہا ہے ۔ اگرچہ بظاہر تو نہیں لیکن بباطن ایک حد اور وقت تک اسے دنیا کے بڑے ممالک کا مسئلہ ہی قرار نہ دیا گیا حالانکہ اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری انہی پرعائد ہوتی ہے یہ دنیا کے دس گیارہ بڑے صنعتی ممالک ہی کی صنعتی ترقی کی قیمت ہے جسے آج دنیا بھگت رہی ہے اور پاکستان جیسے ممالک کا صنعتی آلودگی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہونے کے باوجود نتیجہ بھگت رہے ہیں مگر اتفاق اور یقین دہانیوں کے باوجودعالمی برادری نقصانات کا تاوان دینے کے لئے تیار نہیں بہرحال اس حوالے سے مختلف فورم پر جدوجہد اور مطالبات مسائل کو اجاگر کرنے کا عمل اپنی جگہ جاری رکھنا چاہئے مگر ساتھ ہی ساتھ ان علاقوں کو جہاں ماحولیاتی اثرات سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں سطحی اور وقتی اقدامات کے ساتھ ساتھ آئندہ کی پیش بندی اور مستقل لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے اگر ہم خیبر پختونخوا کے دو اضلاع اپر اور لوئر چترال ہی کو لے لیں تو ماہرین اس علاقے کے کوغذی سے لے کر بروغل تک کے وسیع علاقے کے نابود ہونے کے خطرات کا اظہار کرتے ہیں ہر سال سڑکیں بہہ جاتی ہیں بنیادی اساس کو ازسرنو اٹھانا پڑتا ہے لوگوں کی جان و مال اور املاک و اراضی محفوظ نہیں ایسے میں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہر سال کنویں میں رقم پھینکنے کے عمل کی بجائے ٹھوس منصوبہ بندی اور حالات کے مطابق کام کیوں نہ کیا جائے ۔ہر موسم میں تقریباً پورا علاقہ تباہی کا شکار بنتا ہے ایسے میں سالانہ کی بنیادپریہاں کے بنیادی اساس کی دوبارہ اٹھان ممکن نہیں۔منصوبہ بندی صرف چترال کے لئے نہیں ہر جگہ کے لئے ہونی چاہئے ۔ ہمارے حکمرانوں اور انتظامیہ سے تو مارکیٹنگ کے وہ ماہرین زیادہ دور اندیش ہیں جو دسمبر ‘ جنوری سے پنکھوں اور گرمی کے سامان اور اگست سے ہی سردی سے بچائو کی مصنوعات کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو