آئو آئین آئین کھیلیں

صدر مملکت کو لکھے گئے چیف الیکشن کمشنر کے جوابی خط میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد انتخابات کی تاریخ کے اعلان اور انتخابی عمل پر صدر سے مشاورت کی ضرورت نہیں۔ انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ صدر کے منصب کا احترام اپنی جگہ لیکن ان کا انتخابی عمل اورتاریخ دینے سے کوئی تعلق نہیں۔ قبل ازیں صدر مملکت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ 9 اگست کو وزیراعظم کی طرف سے بھجوائی گئی سمری پر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد آئین کے آرٹیکل48 (5) کے تحت صدر اس بات کاپ ابند ہے کہ وہ اسمبلی تحلیل کرنے کی تاریخ سے 90دن میں عام انتخابات کے لئے تاریخ مقرر کرے۔ صدر نے چیف الیکشن کمشنر کو اس ضمن میں مشاورت کے لئے بلایا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر نے جوابی مراسلے میں کہا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں پارلیمنٹ نے ترمیم کی تھی جس کے بعد انتخابات کی تاریخ طے کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ صدر عام انتخابات کے لئے تاریخ اس صورت میں دے سکتاہے جب وہ قومی اسمبلی اپنی صوابدید پر تحلیل کرے۔ تاہم وزیراعظم کے مشورے یا آئین کے آرٹیکل 48(5) میں فراہم کردہ وقت کے اضافے سے اسمبلی تحلیل کی جاتی ہے تو ایسے میں الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار ہے۔ اطلاعات مطابق صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کے جوابی خط پر وزارت قانون سے رائے طلب کی ہے تاہم صاف دیکھائی دے رہا ہے کہ یہ خط و کتابت حق اختیار اور جواب دعوی کا معاملہ قانونی پیچیدگیوں کے ساتھ آئینی بحران کا دروازہ بھی کھولے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس معاملے میں عدالتوں سے بھی رجوع کیا جائے اس صورت میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بلوں کے معاملے میں پیدا ہونے والے تنازع کے بعد صدر مملکت اور ان کے سابق سیکرٹری کے درمیان ہوئی ٹیلیفونک گفتگو کے وائرل ہوئے حصے کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ معاملے کو اس طور بھی دیکھا جائے کہ کہیں صدر مملکت پر ان کی پارٹی کی جانب سے آئینی تقاضوں اور مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے سے انحراف کے لئے دبائو تو نہیں؟ یہاں یہ سوال بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھتے وقت الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57میں ترمیم کو مدنظر نہیں رکھا۔ نیز یہ کہ انہوں نے ایوان صدر میں موجود سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی سربراہی میں قائم لا ڈویژن سے بھی خط لکھنے سے قبل مشورہ نہیں کیا؟ ثانیا یہ کہ کیا صدر اس امر سے بھی یکسر لاعلم ہیں کہ چند ماہ قبل ہونے والی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں پر 2023 کے انتخابات کا فیصلہ 2021 میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔ رواں ماہ کے ابتدائی دنوں میں مشترکہ مفادات کونسل نے ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری دی۔ مردم شماری کے نوٹیفکیشن کے اجرا کے بعد الیکشن کمیشن قانونی طور پر نئی حلقہ بندیاں کرانے کا پابند ہے۔ رواں ماہ کے ابتدائی دنوں میں ہوئے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے سے الیکشن کمیشن، صدر مملکت اور کوئی تیسرا کیسے انحراف کرسکتا ہے؟ قانونی پیچیدگیوں اور ممکنہ آئینی بحران کے خطرات اپنی جگہ لیکن جس طرح مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے برعکس باتیں ہورہی ہیں جیسا کہ کونسل میں نمائندگی رکھنے والی دونوں بڑی جماعتیں پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ 9 اگست کے بعد 90 دن میں انتخابات کرانے کے مطالبے کا چورن فروخت کرنے میں مصروف ہیں تاکہ رائے دہندگان میں ان کی ساکھ متاثر نہ ہو۔ بذات خود کھلی منافقت کے زمرے میں آتا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل وزیراعظم کی سربراہی میں کام کرتی ہے چند وفاقی وزارتوں کے علاوہ چاروں صوبائی وزیراعلی ان کے رکن ہوتے ہیں۔ رواں ماہ کے ابتدائی دنوں میں جب مشترکہ مفادات کونسل نئی مردم شماری کی منظوری دے رہی تھی تو کیا وزیراعظم سمیت دیگر ارکان اس امر سے لاعلم تھے کہ آئینی طورپر مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن پابند ہے کہ پرانی حلقہ بندیوں کو منجمد کرکے نئی حلقہ بندیاں کرائے؟ سیاسی قیادت کے بڑے اگر اس آئینی ضرورت سے لاعلم تھے تو اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ ہماری دانست میں سیاسی قیادت کے بڑوں کو حقیقت حال کا علم تھا سو اب ان کی طرف سے 90دن میں الیکشن کرانے کا مطالبہ سیاسی ساکھ کا بھرم رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں قیادت اگر 90 دن میں الیکشن کرانے کے عمل کے حوالے سے سنجیدہ تھی تو پھر لازم تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں مردم شماری کی منظوری کے ساتھ نوٹیفکیشن کے اجرا کو منجمد کرکے فیصلہ کیا جاتا کہ انتخابات پرانی حلقہ بندیوں پر ہوں گے اس فیصلے کی کسی تاخیر کے بغیر پارلیمان سے منظوری لے لی جاتی اس میں رکاوٹ بھی کوئی نہیں تھی۔ حکومت نے قومی اسمبلی تحلیل ہونے سے ایک دن قبل بے حساب بلز منظور کرائے تھے ہم اسے بدقسمتی ہی کہیں گے کہ آئینی منصبوں پر فائز سیاسی رہنما خود آئینی تقاضوں اور طریقہ کار سے نابلد ہوتے ہیں یا پھر عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ صدر مملکت کو بھی چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھنے سے قبل ایوان صدر کے لا ڈویژن سے مشورہ کرنا چاہیے تھا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ انہوں نے اس معاملے میں بھی صدر مملکت کے آئینی فرائض اور آئین کے بنیادی تقاضوں کو مدنظر رکھنے کی بجائے اپنی جماعت تحریک انصاف کی خواہش کو مدنظر رکھنا ضروری سمجھا جیسا کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے ترمیمی بلوں کے معاملے میں کیا۔ صدر کے خط اور جوابی خط سے پیدا ہوئی صورتحال بہرطور اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ مسئلہ سلجھنے والا نہیں بلکہ یہ مزید الجھے گا۔ یہ امر بہرحال حیران کن ہے کہ ایک طرف مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی آئینی حیثیت کو بلڈوز کرنے کی خواہشیں اچھالی جارہی ہیں تو دوسری طرف کونسل میں بیٹھ کر فیصلہ کرنے والے بھی حقیقت پسندانہ طرزعمل اپنانے کی بجائے سستی سیاست میں مصروف ہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں تو یہ نامناسب بات ہرگز نہیں۔ بالائی سطور میں مقررہ وقت میں انتخابات کے انعقاد کی ضرورت کی نشاندہی کردی گئی ہے اس حوالے سے ایک ہی راستہ تھا وہ یہ کہ مشترکہ مفادات کونسل مردم شماری کی منظوری کے ساتھ یہ فیصلہ بھی کرتی کہ انتخابات پرانی حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ اس وقت فیصلہ سازوں نے 2021 کے فیصلے کی تجدید کرتے ہوئے معروضی حالات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اسی طرح کا رویہ سابق حکمران جماعت تحریک انصاف ہے جس نے اپنے دور میں 2023 کے انتخابات نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر کرانے کا فیصلہ کیااور اب اس سے انحراف پر بضد ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی میں یوٹرن لینا معمول کا معاملہ ہے لیکن دوسری بڑی جماعتیں تو کم از کم اس امر سے آگاہ تھیں کہ آئینی تقاضوں سے انحراف کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح ملک کے سب سے بڑے آئینی منصب پر فائز شخصیت کی معاونت کے لئے ایوان صدر میں مختلف شعبوں کے ذمہ داران پر مشتمل بھاری بھرکم عملہ موجود ہے لیکن انہوں نے بھی صدر مملکت کی طرح سوچنے کی بجائے پی ٹی آئی کے کارکن کے طور پر سوچا اور عمل کرڈالا۔ اس پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ ان کے اس عمل سے جو آئینی بحران پیدا ہوگا اس سے کیسے نمٹا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے