کاش سنجیدگی سے ایسا ہو سکے

ایک ایسے وقت میں جب شہری مختلف عوامل کے باعث مشکلات میں گھرے ہیں اور حکومتی وسائل اونٹ کے منہ میں زیرا کے مصداق رہ گئے ہیں یہاں مقیم افغان مہاجرین اور غیر ملکیوں کے حوالے سے سخت پالیسی اختیار کرنے پر توجہ مثبت امر ہے ہمارے نمائندے کے مطابق پشاورمیں جعلی شناختی کارڈزپر کاروبارکرنے والے اور غیر قانونی طورپر رہائش پذیر افغان مہاجرین کے اثاثہ جات سے متعلق تفصیلات جمع کرنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے جو پشاور کے مختلف تجارتی مراکزمیں جعلی شناختی کارڈز اور کاغذات پر کروڑوں روپے کاکاروبار کررہے ہیںلیکن ان لوگوں نے بینکوں میں اکائونٹ کھول رکھے ہیں نہ ہی یہ کسی قسم کا ٹیکس دے رہے ہیں اور ان کیخلاف قانون کی خلاف ورزیوں کی بھی شکایات ہیں یہ تاجر شہر کے مختلف علاقوں میں یکہ توت ، زرگر آباد ، پھندروڈ، افغان کا لونی ، پخہ غلام ، شنواری سرائے ،چارسدہ روڈ ، کوہاٹ روڈ ، رنگ روڈ اور حیات آباد میں مہمند، باجوڑی، آفریدی اور محسود ، وزیر بن کررہ رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر نے شناختی کارڈز کے ساتھ ساتھ پاسپورٹ بھی حاصل کررکھے ہیں ان لوگوں نے دوسرے لوگوں کے ناموں کروڑوں روپے کے اثاثہ جات بنارکھے ہیں اس لئے شہر کے مختلف مقامات پر افغان مہاجرین کے اثاثہ جات کی چھان بین کی منصوبہ بندی کے سلسلے میں تحقیقاتی اداروں نے محکمہ مال سے بھی تفصیل طلب کی ہے افغان مہاجرین کے کروڑوں روپے مالیت کے اثاثہ جات میں ذاتی رہائش گاہوں کے علاوہ کروڑ وں روپے مالیت کے کمرشل پلازے بھی ہیں جہاں سے ماہانہ لاکھوں روپے کرایہ وصول کیا جاتاہے اور حکومت کو ایک روپے ٹیکس نہیں دیا جارہا ہے ان تمام لوگوں کو نادرا کے ملازمین کی ملی بھگت سے پاکستانی بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے صوبے کے وسائل پر اضافی بوجھ پڑاہے۔اگرچہ ہمارے نمائندے کی رپورٹ کسی انکشاف کے زمرے میں نہیں آتا اور ہر کسی کو اس کاعلم ہے اور اداروں کی جانب سے بھی ملی بھگت اور تساہل کا مظاہرہ کوئی انوکھی بات نہیں اس کے باوجود معروضی حالات میں اس رپورٹ کی اہمیت اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ اب معیشت پر بوجھ بن جانے والے ان تمام عناصر بشمول اندرونی عناصر سبھی کے خلاف ایسے اقدامات کئے جائیں کہ ان کے کاروبار سے ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا تدارک ہوسکے اس ضمن میں کسی مصلحت اور دبائو کا شکار نہ ہوا جائے اور ایسا کرکے ہی مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن ہو گا اور اگر پہلے کی طرح ڈنگ ٹپائو کاعمل اختیار کیا گیا تو یہ بڑی بدقسمتی ہو گی۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو