خدا کرے کہ یہ بیل منڈھے چڑھے

خیبر پختونخوا کو دہشت گردی کے خلاقف جنگ کی مد میں ملنے والی بھاری ر قم کے استعمال اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے حکومت کی جانب سے بنیادی سازو سامان کی فراہمی اور سی ٹی ڈی ٹی جیسے ادارے کو حالات سے نمٹنے کے لئے پوری طرح فعال کرنے میں ناکامی کی باز گشت پولیس لائن پشاور میں بم دھماکہ کے موقع پرسنی گئی تھی پھر اس پر مٹی ڈال دی گئی خیبرپختونخوا کی نگران حکومت نے وفاقی حکومت کو آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ذریعے صوبے کو دہشتگردی کیخلاف جنگ کی مد میں ملے فنڈز کا سپیشل آڈٹ کرانے کی درخواست کردی گئی۔ محکمہ خزانہ خیبرپختونخوا نے فنڈز کا خصوصی آڈٹ کرانے کے لئے وفاقی حکومت کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزارت خزانہ آڈٹ کرانے کے لئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو ٹیم بھجوانے کی درخواست کرے۔ دستاویز کے مطابق محکمہ خزانہ نے آڈٹ ٹیم کے لئے ٹی او آرز بھی بھیجے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ آڈٹ ٹیم تحقیقات کرے کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں صوبے کو کتنے پیسے ملے، محکمہ داخلہ، پولیس کے اخراجات میں اضافے کا دیگر محکموں سے موازنہ کیا جائے۔خط میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبرپختونخوا کے اخراجات معلوم کیے جائیں جبکہ آڈٹ ٹیم وصول شدہ رقم کے اخراجات کے اثرات کا بھی پتہ لگائے، اسی طرح آڈٹ ٹیم انسداد دہشت گردی کے منصوبوں اور خرچ ہونے والی رقم کا کھوج لگائے۔ خیبرپختونخوا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں سالانہ قابل تقسیم محاصل کا ایک فیصد ملتا ہے۔ پی ٹی آئی دورحکومت میں صوبے کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں 415 ارب روپے کے فنڈز ملے تھے۔ان ساری کاوشوں کے باوجود اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہونا عجیب اس لئے نہ ہو گا کہ اس دورانیے کے حکمران اب خود کو سیاسی ضرورت بنا کر احتساب سے بالاتر ہو چکے ہیں اور یہی بدقسمتی کی بات ہے کہ ملک میں نہ تو سیاست کا رخ بدلتا ہے او رنہ ہی احتساب کا عمل ہوتا ہے دونوں کا ایک دوسرے کے سپر بننے کا عمل فساد کی وہ جڑ ہے کہ جب ایک اسے اکھاڑنہ پھینکا جائے تب تک نہ تو سیاست کی اصلاح ہو گی اور نہ ہی احتساب ہو سکے گا دیکھنا یہ ہے کہ نگران حکومت نے اس مد میں جو قدم اٹھایا ہے اس کا انجام کیا برآمد ہوتا ہے بہرحال خیر کی کوئی توقع نہیں۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے حقوق کی بازیافت