”مثالی نظام تعلیم”

کالم شروع کرنے سے قبل میں نے دنیا کے مختلف ممالک میں تعلیم اور نظام تعلیم بارے تھوڑی سی آگاہی حاصل کی حاصل مطالعہ یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم ہے نہ نظام تعلیم یہ جو تھوڑی بہت آئی ٹی اور فری لانس کے ذریعے نوجوان زرمبادلہ کما رہے ہیں یہ یہاں کے تعلیمی ادروں سے سیکھا ہواعلم نہیں بلکہ ان کی اپنی کاوشیں اور محنت ہے چند ایک تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل با آسانی بیرون ملک جا کر اچھی ملازمتیں اس لئے حاصل کرتے ہیں کہ ان اداروں میں معیاری تعلیم دی جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ یہ باقاعدہ ٹیسٹ لے کر چن چن کر طالب علم لیتے ہیں ملکی تعلیمی نظام ‘ نصاب تعلیم ذریعہ تعلیم اساتذہ کرام سکول سے لے کر جامعات تک کی لڑی کسی طرح بھی عصری تعلیم کی ضروریات سے گویا واقف ہی نہیں اگر لاعلمی کا الزام نہ بھی دیا جائے تو عملی طور پر صفر قرار دینے کی پوری گنجائش موجود ہے ۔ یہ تاثرات اپنی جگہ بہرحال موسم گرما کی تعطیلات کے بعد تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں کالجوں اور جامعات میں ان دنوں داخلوں کے باعث والدین کی فکر مندی اپنی جگہ اہم ہے ایک فکری و ذہنی دبائو کی کیفیت سے والدین اور طلبہ دو چار ہوں گے کہ کونسا شعبہ اختیار کریں پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں کے ٹیسٹ سے رہ جائیں تو کیاکریں کونسا شعبہ بہتر رہے گا کس شعبہ کی آگے مانگ ہو گی اس بارے زیادہ سے زیادہ معلومات ان طلبہ سے حاصل کرنا مفید ہوگا جو پہلے سے کسی تعلیمی ادارے میں کسی مضمو ن میں پڑھ رہے ہوں باقی آئندہ کے مضامین کے حوالے سے تو نیٹ سے اچھی رہنمائی اور مشورے مل سکتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے ہاں سکول کی سطح پر کوئی ایسا نظام تعلیم نہیں کہ بچوں کے رجحان کا جائزہ لے کر ان کو ان کے رجحانات کے مطابق تعلیمی شعبے میں بھیجا جائے یہ اہم فریضہ تعلیمی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی طرح اساتذہ انجام دینے کے اہل ہوتے تو فکر مندی کی کوئی بات ہی نہ تھی ہمارے یہاں کا نظام تعلیم ایسا نہیں کہ جس میں کوئی ایسا سسٹم کام کر رہا ہو جہاں بچوں کی ذہنی و فکری صلاحیتوں کے پیش نظر ان کے آگے کی تعلیم کوجاری رکھنے کے لئے ان کی الگ الگ ٹیم بنائی جائے پھر ہربچے کی صلاحیت اور دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے سکول الگ ہوں جہاں انہیں ان کی متعلقہ فیلڈ میں آگے بڑھ کر تعلیم دی جائے اور انہیں آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے ۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ تمہارا منصوبہ اگر سال بھر کے لئے ہے تو کاشت کرو ‘ تمہارا منصوبہ دس سال کے لئے ہوتو شجر کاری کرو اور اگر دائمی اور مستقل منصوبہ ہے تو پھر افراد تیار کرو اس بارے دوسری رائے نہیں کہ افراد کو تیار کرنے کا سب سے بہترین آلہ تعلیم ہے اور اعلیٰ و بہتر تعلیم کے لئے نظام تعلیم کا بہتر ہونا بہت ضروری ہے ۔ جس طرح کالم کے شروع میں میں نے حوالہ دیا تھا کہ دنیا کے بہترین نظام ہائے تعلیم کاجائزہ موضوع کا حصہ ہے ۔میں ابتداء میں کسی بڑے اور پروسائل ملک کی مثال نہیں دوں گی اور عمرمیں بھی اپنے ملک سے کم اور ہماری ہی طرح برطانوی استعمار سے آزاد ملک جیسے مماثلت کے حامل ملک کی مثال دوں گی ۔ سنگا پور ایک چھوٹا سا جزیرہ نماملک ہے ہمارے بعد 1965ء میں آزاد ہونے والا ملک سنگا پور آج معیشت و اقتصاد کا بین الاقوامی مرکز بن چکا ہے ہماری کیا حالت ہے ان دنوں اس پر بہت بات بھی ہوتی ہے اور ہمیں اپنے ملک کی حالت اور حیثیت کا بخوبی علم و ادراک بھی ہے بہرحال سنگا پور کا تعلیمی نظام اس وقت دنیا کا بہترین تعلیمی نظام مانا جاتا ہے یہاں دنیابھر کے تعلیمی نظام کو سامنے رکھتے ہوئے پندرہ سال کی عمر کے بچوں کی سوچ اور استعداد کا ایک ٹیسٹ لیا جاتا ہے اور اس جائزے کی روشنی میں ترجیحات کا تعین کرکے ان کے
شعبوں کاچنائو ہوتا ہے ۔یہ ٹیسٹ ہمارے ہاں کی طرح کے انٹری ٹیسٹ جیسا نہیں ہوتا کہ رٹے رٹائے گئے اور سکور کرکے واپس آگئے بلکہ وہاں استعداد و دانش اور رجحان سبھی کا تفصیلی اور باریک سے باریک جائزہ ہوتا ہے جس کا ہمارے ہاں نہ توکوئی نظام ہے نہ اس نظام سے واقفیت ہے اور نہ ہی ہم اسے سیکھ کر اس کی نقل ہی کرنے پرتیار ہیں ہم جس فرسودہ طریقہ پر برسوں سے چلے آرہے ہیں وہی آج بھی معیار اور طریقہ ہے ہمارا طرز امتحان عقل و دانش اور سمجھ بوجھ کا نہیں بلکہ حافظے کا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے مسند نشیں بھی عقل سے پیدل نظر آتے ہیں ہمارے ہاں اساتذہ کی سلیکشن اور تربیت دونوں ہی فرسودہ اور ناقابل قبول ہے دنیا میں اساتذہ کی وقعت ہوتی ہے وہ ان کو عزت و تکریم کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ مشاہرہ اور مراعات سے نوازاجاتا ہے جبکہ ہمارے ہاںکے اساتذہ سیاسی بنیادوں اور سفارش پربھرتی ہوتے ہیں اور مطالبات کے حق میں احتجاج پر ان پڑھ پولیس اہلکاروں ان کو لاٹھیوں سے پیٹتے ہیں جن کوانہی اساتذہ نے ڈنڈوں سے مار مار کر سکول سے بھگائے ہوتے ہیں جس ملک میں علم اور تعلیم کی قدر و منزلت کا یہ عالم ہو اس ملک میں معیاری تعلیم اور رجحان کے مطابق شعبوں کے چنائو کی بحث ہی عبث ہے صرف یہی نہیں ہمارے ہاں تعلیم سب سے بڑی تجارت اور سب سے منافع کی تجارت بن چکی ہے ۔ اس کا تو تذکرہ ہی نہ کیا جائے تو بہتر ہوگا اپنے ملک کی نظام تعلیم اور حالات سے تو آپ واقف ہی ہیں آیئے دیکھتے ہیں کہ دنیا میںجدید نظام تعلیم کیا ہے ان کا طریقہ کار کیا ہے ہاتھ کنگن کو آرسی کے مصداق خود ہی ملاحظہ فرمائیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ سنگا پور کا تعلیمی نظام بطور نمونہ ملاحظہ ہو۔
2018 کے Pisa ٹیسٹ میں چائنا اور سنگاپور نے ٹاپ رینک حاصل کیا۔ کینیڈاچھٹے نمبر پر، فن لینڈ 7ویں نمبر پر، یوکے دسویں نمبر پر ،آسٹریلیا 17 ویںنمبرپر، امریکہ 22 ویں نمبر پر، فرانس 23 ویں نمبر پر رہا ۔
چائنا اور سنگاپور کے اسٹوڈنٹس دنیا بھر کے ٹاپ ممالک کے اسٹوڈنٹس سے آگے رہے، لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟
1۔سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ پاور فل ٹیوٹرنگ اور پرائیویٹ ٹیوشن، جو کہ بچوں کواسکول کی طرف سے دی جاتی ہے اور یہ ایک مضبوط سپورٹنگ سسٹم ہے۔
2۔دوسری چیز یہاں کا ٹیچنگ سسٹم ہے ۔سنگاپور میں ٹیچنگ ایک بہت ہی معتبر پیشہ ہے ۔ہمارے یہاں میڈیکل کی اور آئی آئی ٹی یا سی ایس ایس کی جو اہمیت ہے ،وہی سنگاپور میں ٹیچنگ پیشے کی ہے اور یہ بہت ہی Highly paid profession مانا جاتا ہے۔ ایک ٹیچر لگاتار اپنے skill کو ڈیولپ کرتا رہتا ہے ،اپنی صلاحیتوں کو آگے بڑھاتا رہتا ہے اور طرح طرح کی کوششیں کرتا رہتا ہے، سیکھتا ہے ،پھر یہی چیزیں وہ بچوں کو سکھاتا ہے اور بچوں کی نشوونما میں ٹیچر کی یہ تمام صلاحیتیں کام آتی ہیں ۔
سنگاپورکا سب سے اہم امتحان پرائمری لیول پر (PSLE) پرائمری اسکول لیونگ ایگزام ہوتا ہے، جیسے ہمارے یہاں دسویں لیول کا امتحان، جو بچوں کے لیے کافی چیلنجنگ ہوتا ہے ۔یہ امتحان ان کامستقبل طے کرتا ہے ۔یہاں سے نکل کر بچے
1-Express level
2-Normal level
3-Normal technical level
پر جاتے ہیں اور اپنا مستقبل طے کرتے ہیں۔اس میں سب سے زیادہ بہتر پرفارمینس والے اسٹوڈنٹس جو ایکسپریس لیول پر جاتے ہیں،ان کیلیے ایک Gifted education system دیا جاتا ہے، جو ان لیے کا فی سپورٹنگ اور فائدہ مند ثابت ہوتا ہے ۔کیا ہمارے ہاں معاملہ اس کے بالکل الٹ نہیں آخر ہم کب اس پر توجہ دیں گے اور اپنے نظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرکے دنیا کے ممالک کی صف میں کھڑے ہو سکیں گے۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو