بڑھتے موسمیاتی آفات

دیکھا جائے تو موسمیاتی حالات جس طرح روز بروز شدت اختیار کرتی جارہی ہیں اس کا ہمیں ادراک ہی نہیںیہی ہے کہ نہ حکومتی کارکردگی اور نہ ہی عوامی شراکت اور شعور ایسا کہ موسمیاتی آفات سے نمٹنے کی کوئی ہمہ گیر حکمت عملی بنائی اور لاگو کی جاسکے۔ وجہ صرف ایک اور وہ یہ کہ کوئی بھی موسمیاتی تبدیلی کو باتوں اور تبصروں سے زیادہ سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے کیونکہ اس کی آب و ہوا گرم ہے۔ یہ ایک ایسے جغرافیائی خطے میں واقع ہے جہاں درجہ حرارت میں اضافے کا امکان عالمی اوسط سے زیادہ ہے۔ اس کا زمینی رقبہ زیادہ تر بنجر اور نیم بنجر ہے (تقریبا 60 فیصد رقبہ پر ہر سال 250 ملی میٹر سے کم بارش ہوتی ہے۔اور 24 فیصد رقبے پر 250-500 ملی میٹر کے درمیان ہوتی ہے اس کے دریائوں کوبنیادی طور پر ہندو کش قراقرم ہمالیہ کے گلیشیئرز کے پگھلنے سے پانی ملتا ہے جو عالمی حدت (گلوبل وارمنگ کی وجہ سے تیزی سے پگھل کر دریائوں کے ذریعے سمندر میں گر کر میٹھا پانی ضائع کررہے ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان کی معیشت بڑی حد تک زرعی ہے اور اس وجہ سے آب و ہوا کے حوالے سے انتہائی حساس ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک میں مون سون کی بارشوں کو تغیر پذیری کے بڑھتے ہوئے بڑے خطرات کا سامنا ہے۔اس لیے قابل بھروسہ پیشگی خبرداری نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے پتہ نہیں ہوتا کہ کب شدید بارشیں اور سیلاب آئیں گے اور کب طویل خشک سالی آئے گی۔ موسمیاتی بے یقینی کے زیر اثرملک کی آبی سلامتی، سیلاب سے بچائو اور توانائی کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ساحلی علاقوں کو موسمیاتی تبدیلی سے جڑے لاحق خطرات صورتحال مزید سنگین کررہے ہیں اور سندھ طاس خطہ دیکھا جائے تو سمندر کی سطح میں اضافے، ساحلی کٹا، کھارے سمندری پانی کی مداخلت اوربحیرہ عرب میں طوفانی سرگرمیوں میں اضافے جیسے خطرات میں گھرا ہے۔ سندھ طاس یعنی دو تہائی پاکستان پہلے ہی شدید گرمی کے علاقے میں واقع ہے اور درجہ حرارت میں کسی بھی طرح کا اضافہ ہیٹ اسٹروک، اسہال، ہیضہ، اور دیگر بیماریوں کے ذریعے انسانی صحت کو نقصان پہنچائے گا۔ مزید یہ کہ بار بار آنے والے سیلابوں، خشک سالی اور طوفانوں کی وجہ سے انسانی بستیاں اجڑنے کا خطرہ ہے۔ اس خطے میں2100ء تک درجہ حرارت میں 4 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کا خدشہ ہے اور وقتی اور مقامی پیمانے پر بارشیں بہت زیادہ متغیر ہوں گی۔جس سے طاس خطہ نہ صرف مقامی موسمی حالات سے متاثر ہوگا بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دریائے سندھ اور جنوب میں اطراف کے سمندر پر موسمی سرگرمیاں بھی متاثر ہوں گی۔ ارباب اختیار کو چاہئے دستاویزات، تقاریر، وعدوں اور دعووں سے ایک قدم آگے بڑھ کر موسمیاتی تبدیلی سے بچائو، بحالی اور موافقت کے عملی اقدامات فی الفور لیے جائیں اور بے قصور عوام کو موسمیاتی انصاف فراہم کیا جائے ورنہ ہماری داستاں سر فہرست ہوگی تباہی کی داستانوں میں۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟