ملک گیرہڑتال پر اٹھتے سوال

مہنگائی کے خلاف ملک بھر میں شٹرڈائون ہڑتال جس کی کال جماعت اسلامی اور مرکزی تاجران تنظیم نے دی تھی مکمل طور پر کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی کیونکہ خود تاجر تنظیمیں اس حوالے سے دوعملی کا شکار ہوگئی تھیں اور کئی ایک شہروں میں ہڑتال نہ صرف جزوی رہی بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق جماعت اسلامی کے کارکنوں کی جانب سے دکانیں زبردستی بند کروانے پر بھی تاجروںاور جماعت کے کارکنوں میں صورتحال کشیدہ رہی سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کم رہی کیونکہ عام لوگ ہڑتال کے حوالے سے خبریںشائع ہونے کی وجہ سے معمولات زندگی نبھانے کیلئے گھروں سے باہر ہی نہیں آئے ۔وکلاء تنظیموں نے بھی ہڑتال میں حصہ لیتے ہوئے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جبکہ پشاور میں احتجاج مظاہرے کے باعث بی آر ٹی سروس معطل رہی۔ بجلی کے بھاری بھرکم بلوں پٹرولیم مصنوعات اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے شٹرڈائون کی کال اگرچہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکی تاہم جزوی ناکامی کے باوجود ہڑتال پھر بھی مؤثر رہی اور عوام اس فیصلے کی پذیرائی کئے بناء نہیں رہ سکے اور جس مقصد کیلئے اس ہڑتال کی کال دی گئی تھی اس حوالے سے عوامی پیغام مقتدر حلقوں تک ضرور پہنچ گیا۔ البتہ اس بات پر افسوس کا اظہار کئے بناء نہیں رہاجاسکتاکہ ہڑتال اور شٹرڈائون کی کال دینے والی جماعت نے دکانیں بند کرانے کے حوالے سے تقریباً وہی رویہ اختیار کیا جو اس جماعت کے اکابرین ہر سال نیو ائیرنائٹ پر مبینہ ہلڑبازی اور مخصوص طبقے کی جانب سے نئے سال کی آمدکی خوشی میں اہل مغرب کی تقلید کرتے ہوئے ”طوفان بدتمیزی” برپا کرتے ہیںتاہم نیو ائیرنائٹ اور کسی بھی مسئلے پر احتجاج کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے اور اگر نیوائیر نائٹ کی ہلڑبازی کو ایک مسلم معاشرے کی روایات کے خلاف سمجھتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس پر زیادہ اعتراض کی گنجائش نہیں ہے تاہم کسی بھی عوامی مسئلے پر شٹرڈائون کے فیصلے سے اختلاف کی مکمل گنجائش بھی موجود ہے کہ جس کی مرضی چاہے اس میں شرکت کرے اور جو اس سرگرمی کا حصہ نہ بننا چاہے تو اسے زبردستی اور طاقت کے بل پر مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ضرور ہڑتال میں حصہ لے ویسے بھی ایک جمہوری معاشرے میں جہاں ہڑتال یا احتجاج کا حق ہر کسی کو حاصل ہے وہاں اس سے لاتعلق رہنے کی بھی لوگوں کو آزادی ہے اور زور زبردستی کسی کو اس قسم کی سرگرمی کا حصہ بنانا غلط ہے اس لئے اگر جماعت کے کارکنوں نے شٹرڈائون ہڑتال کو کامیاب بنانے کیلئے ”طاقت” کا استعمال کیا تو یہ ایک غیر جمہوری طرزعمل ہے اور جماعت کے اکابرین کو اپنی اس سوچ اور اپنے ”مبینہ” ڈنڈہ برداروں کے رویئے پر نظرثانی کرنی پڑے گی اس لئے کہ ہر بات کو طاقت کے بل پر کامیابی سے ہمکنار کرنا غلط ہے۔ ویسے بھی اس حوالے سے تاجر تنظیموںکے اندر پھوٹ کی خبریں میڈیا پر سامنے آرہی تھیں اور اگر کچھ لوگ ہڑتال کے حق میں تھے تو کئی دوسرے نکتہ نگاہ رکھتے ہوئے شٹرڈائون کو درست قرادر دینے میں تامل کا اظہار کررہے تھے ایسی خبریں سامنے آنے کے بعد عوام اور خاص طور پر تاجر برادری کو شٹرڈائون پر آمادہ کرنے والوں کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مؤثر انداز میں اپنے مقصد کی تکمیل پر آگے بڑھنا چاہئے تھا۔ اس ضمن میں دیگر سیاسی جماعتوں (ایک آدھ چھوڑ کر) کا رویہ اگر ہڑتال کی مخالفت کرنے پر مبنی نہیں تھا تو کم از کم ”غیر جانبدارانہ” ضرور تھا ایسا کیوں تھا یہ تو متعلقہ سیاسی جماعتوں کے قائدین ہی بہتر جانتے ہیں اور اگر بہ فرض محال ان کا یہ رویہ عوام کے مفاد کے مطابق نہیں تھا یا خلاف تھا تواس کا جواب عوام کی عدالت میں وہ آنے والے انتخابات میں دینے پر مجبور ہوں گے اور عوام ان کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔ کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اگر جماعت کے اکابرین شٹرڈائن ہڑتال کو کامیابی سے ہمکنار کرنا چاہتے تھے تو انہیں ”سولوفلائیٹ” کا شوق تج کر دیگر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی پالیسی اختیار کرنی چاہئے تھی۔ اسی طرح دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی عوامی مفاد کے معاملات پر یکسوئی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا اور تمام جماعتوں کو باہم صلاح مشورہ کرکے ایک ہی مؤقف اپنا کر عوام کے جائز مطالبات کو حکومت کے سامنے رکھنے پر توجہ دینی چاہئے تھی اس سے زور زبردستی شٹرڈائون کی پالیسی سے احتراز کی راہ بھی نکل آتی اور بدمزگی کی صورتحال بھی جنم نہ لیتی۔ بہرحال جزوی ہڑتال ہی سہی عوام کے مسائل کو مقصدر قوتوں تک پہنچا دیا گیاہے اور اس کے نتائج کیا نکلیں گے یہ ایک الگ بحث ہے۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو