نااہلی کیس، پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ میں تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت کے آغاز پر ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات سے متعلق انفرادی کیس ہم نہیں سنیں گے، ہم آئینی تشریح سے متعلق کیس سنیں گے۔
یاد رہے کہ سپریک کورٹ میں 7 رکنی لارجر بینچ کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے ہیں ، ان کےعلاوہ لارجر بینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحیی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بنیادی معاملہ اسی عدالت کا سمیع اللہ بلوچ کیس ہے جس پر سپریم کورٹ بار نےبھی سوال اٹھایا ہے۔
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق نااہلی کا ڈکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا۔ اس پر وکیل مخدوم علی نے کہا کہ جی بالکل۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سول کورٹ نااہلی کا ڈکلیریشن دے سکتا ہے۔ وکیل مخدوم علی نے کہا کہ سول کورٹ ایسا ڈکلیریشن نہیں دے سکتا، انہوں نے کہا کہ کونسا سول کورٹ ہے جو واجبات باقی ہونے پر کہہ دے کہ یہ صادق و امین نہیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز تک محدود کیوں کر رہے ہیں۔ ہم آئینی تاریخ، بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں، مخصوص نئی جزئیات داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لئے گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم پاکستان کی تاریخ کوبھول نہیں سکتے، پورے ملک کو تباہ کرنے والا 5 سال بعد اہل ہو جاتا ہے، صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو تاحیات نااہل، صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے، خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں۔
وکیل مخدوم علی نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ایک دوسرے سے الگ نہیں پڑھا جا سکتا، ان دونوں آرٹیکلز کو بنیادی حقوق والے آرٹیکل 17 سے الگ بھی نہیں پڑھا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے پھر ریمارکس دیے کہ کہا گیا کہ عام قانون سازی آئینی ترمیم کا راستہ کھول سکتی ہے، اس کا کیا مطلب ہے ہم اپنی مرضی سے جو فیصلہ چاہیں کر دیں، کیا ہمارے پارلیمان میں بیٹھے لوگ بہت زیادہ سمجھدار ہیں، پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نااہلی سے متعلق کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا، مگر کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی۔
جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ میں آئین کو 18ویں ترمیم کے بعد سے دیکھ رہا ہوں، ہمیں تشریح کیلئے آئین میں دیئے ٹولز پر ہی انحصار کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین نے نہیں کہا تھا کہ نااہلی تاحیات ہے یہ ہم نے کہا، کوئی قتل کر کے لواحقین سے صلح کرلےتو معاملہ ختم ہو جاتا ہے، کاغذات نامزدگی میں کچھ غلط ہو جائے تو تاحیات نااہل کیسے ہو جائے گا۔
جسٹس جمال خان نے وکیل سے استفسار کیا کہ فراڈ پر ایک شخص کو سزا ہو جائے تو کیا سزا کے بعد انتخابات لڑ سکتا ہے۔ وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ دھوکا دہی میں سزا پوری ہونے کے بعد انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ بات کرنا چاہتی ہے تو ہم نے کب روکا ہے، رانا ثنا اللہ