چیف جسٹس

بھٹو پھانسی :سپریم کورٹ قصور وار ہے یا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر؟ چیف جسٹس

ویب ڈیسک :سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ کیس میں سپریم کورٹ قصور وار ہے یا پھر اس وقت کا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر؟
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ریفرنس کی سماعت کی۔
دوران سماعت رضا ربانی روسٹرم پر آئے، چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالتی معاون ہیں؟ رضا ربانی نے جواب دیا کہ میں عدالتی معاون نہیں لیکن بختاور اور آصفہ بھٹو کا وکیل ہوں، ہم نے کیس میں فریق بننے کی درخواست جمع کرائی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ٹھیک ہوگیا اس درخواست کو دیکھتے ہیں۔
بعد ازاں عدالتی معاون صلاح الدین احمد روسٹرم پر آئے، انہوں نے بتایا کہ میری اہلیہ نواب احمد قصوری کی نواسی ہیں، عدالت فریقین سے پوچھ لے کہ میری معاونت پر کوئی اعتراض تو نہیں؟
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اہلیہ نے اعتراض اٹھایا ہے تو پھر بڑا سنجیدہ معاملہ ہے، وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ ذوالفقار بھٹو کے ورثا کو بیرسٹر صلاح الدین پر اعتراض نہیں ہے۔
بعد ازاں مخدوم علی خان نے سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا، ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی بہن نے صدر مملکت کے سامنے رحم کی اپیل دائر کی تھی ، ذوالفقار علی بھٹو نے بذات خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی، ذوالفقار علی بھٹو کو 4 – 3 کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی، بعد میں ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ میں نے دباو¿ میں فیصلہ دیا۔
اسی دوران احمد رضا قصوری کے روسٹرم پر آنے کے بعد چیف جسٹس نے ان کو بات کرنے سے روک دیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں، پہلے عدالتی معاون کو بات مکمل کرنے دیں، آپ کو ان کی کسی بات پر اعتراض ہے تو لکھ لیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ہمیں ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر نیوز نے انٹرویو کی کاپی بھیجی ہے، انٹرویو شاید ہارڈ ڈسک میں ہے ، سربمہر ہے ابھی کھولا نہیں، عدالت نے اسٹاف کو انٹرویو کی کاپی ڈی سیل کرنے کی ہدایت جاری کردی۔
عدالت نے فاروق نائیک کی یو ایس بی کی ویڈیو کمرہ عدالت میں چلانے کی ہدایت دی،چیف جسٹس پاکستان نے دریافت کیا کہ جج صاحب کا یہ انٹرویو کب لیا گیا؟ نوٹ کر لیں 3 دسمبر 2003 کو یہ انٹرویو چلایا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت اس وقت ایک شخص کی عزت اور تاریخ کی درستی دیکھ رہی ہے، عدالت بہتر مثال قائم کرنا چاہتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ واحد نکتہ یہی ہے کہ اس وقت عدلیہ آزاد نہیں تھی، ہم کیسے اس مشق میں پڑیں کہ بینچ آزاد نہیں تھا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ ہمارے سامنے قانونی سوال کیا ہے؟ کیا ہم نے صرف قانونی سوال کا جواب دینا ہے؟ کیا ہم نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی تحقیقات بھی کرانی ہیں؟ کیا ہم ایک انٹرویو کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے کر رائے دے دیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ بھی بتا دیں کہ بھٹو ریفرنس میں آخری قانونی سوال کیا پوچھا کیا گیا ہے؟
احمد رضا قصوری نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں سارا واقعہ لکھا ہے جس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے احمد رضا قصوری سے مکالمہ کیا کہ آپ متعلقہ حصہ ڈھونڈ لیں عدالتی وقت ضائع نہ کریں۔
احمد رضا قصوری نے بتایا کہ کتاب میں جو لکھا گیا اگر ان پر دباو¿ تھا تو استعفیٰ دے دیتے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ ہمیں نہ سمجھائیں جو پڑھنا ہے پڑھ لیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے دلیل دی کہ میری نظر میں ہمیں اپنی تاریخ کو درست کرنا چاہیے، کلنک ایک خاندان پر نہیں لگا بلکہ اداروں پر بھی لگ چکا ہے، اس پر وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ آپ نے بالکل درست بات کی ہے۔
بعد ازاں چیف جسٹس پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ کیا اس مقدمے کو انتخابات کے بعد سنیں؟
وکیل فاروق ایچ نائیک نے استفسار کیا کہ مجھے ہدایات ہیں کہ کیس کو جلد سنا جائے۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ دو الیکشن تو پہلے ہی گزر چکے ہیں، عدالت پہلے معاونین کو سن لے، اٹارنی جنرل ، مجھے اور رضا ربانی صاحب کو بعد میں سنا جائے۔
بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا، حکم نامے کے مطابق رضا ربانی نے بتایا کہ وہ صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو زرداری کی نمائندگی کر رہے ہیں، زاہد ابراہیم فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار جونیئر کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
بعد ازاں کیس کی سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔

مزید پڑھیں:  جج حلف لیتے وقت کسی بھی قسم کا دباؤ نہ لینے کی قسم کھاتا ہے ،پشاور ہائیکورٹ