جامعہ پشاورکے مالی مسائل

جامعہ پشاور کے مالی مسائل میں مزیداضافہ اور ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن بڑھانے سے جامعہ کا خسارہ اڑھائی ارب روپے سے بڑھ جانا شہر کی قدیم دانش گاہ کے مستقبل کے حوالے سے پریشان کن صورتحال کا باعث امر ہے مزید پریشان کن بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے مالی مشکلات میں گھری پشاور یونیورسٹی کو فنڈز کی فراہمی سے معذرت کرتے ہوئے اپنے وسائل بروئے کار لانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کسی بھی خود مختار ادارے کے جاری اخراجات کی ذمہ دار نہیںہے۔جامعہ پشاور کو پہلے بھی سفارش کی گئی تھی کہ وہ اپنی آمدن بڑھائے،بجٹ میں 42کروڑ 50لاکھ روپے رکھے گئے ہیں تاہم صوبائی حکومت یہ رقم صرف تب ہی جاری کر سکے گی جب جامعہ پشاور صوبائی حکومت کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنے اخراجات کم کرے۔جامعہ پشاور ہو یاصوبے کی دیگر جامعات کم و بیش بلکہ تقریباً تمام ہی جامعات مالی مشکلات سے دو چار ہیں اور بار بار فیسوں میںاضافہ کے باعث اب سرکاری جامعات اور تجارتی بنیادوں پر چلنے والے جامعات کی فیسوں میں زیادہ فرق نہیں رہ گیا ہے سرکاری جامعات میں بدعنوانی وہ بڑاسنگین مسئلہ ہے جس کے باعث مالی خسارہ بڑھتا ہی رہا نیز سیاسی و سفارشی و غیرضروری بھرتیاں مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ہیں، ریٹائرڈ اساتذہ کوپنشن کی ادائیگی سے لے کرملازمین کو تنخواہوں اورمراعات کی ادائیگی ان حالات میںزیادہ عرصہ ممکن نہ ہو صوبائی حکومت کی جانب سے دیئے گئے مشوروں کونظراندازکرنے کے بعداب وہاں سے بھی سوائے مشورے کے مزید توقع نہیں اور آخر کب تک سرکاری خزانہ یہ بوجھ برداشت کرپائے ،حالات کا تقاضا ہے کہ بدعنوانی کی کوئی گنجائش نہ رکھی جائے اور غیر قانونی و غیرضروری بھرتیوں پربھی نظرثانی ہونی چاہئے ،جامعہ کے مالی وسائل کا تحفظ یقینی بنانے کے بعد مزید آمدن کے ذرائع اور سادگی اختیار کرنے کے بعد صوبائی حکومت کو اس سے آگاہ و مطمئن کرنے کے بعد ہی فنڈزکا مطالبہ مناسب ہو گا لیکن جب تک چھید بند نہیں ہوں گے تب تک اس بحران سے نکلنا مشکل ہوگا۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو