چلو اب الیکشن الیکشن کھیلو

انتخابی عمل کے پہلے مرحلہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد چھان بین کے دوران تحریک انصاف کے جن بڑے بڑے رہنمائوں کے کاغذات مسترد ہوئے تھے ان میں سے عمران خان، مخدوم شاہ محمود قریشی، مراد سعید اور چند دیگر کے علاوہ تمام افراد کے کاغذات نامزدگی کو الیکشن ٹربیونلز نے منظور کرتے ہوئے ان رہنمائوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیدی ہے۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ نے ابتداء میںحکم امتناعی دیا بعدازاں سنگل بنچ نے ہی حکم امتناعی واپس لے لیا اس دوران سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست منظور کرلی۔ بدھ کو پشاور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کی دائر درخواست منظور کرتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان بحال کردیا۔ اس فیصلے سے چند گھنٹے قبل پی ٹی آئی نے انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست واپس لے لی بعدازاں سپریم کورٹ کے باہر پی ٹی آئی کے بیرسٹر علی گوہر نے کہا پشاور ہائیکورٹ سے فیصلہ ہمارے حق میں آرہا ہے اس لئے ہم نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست واپس لے لی بیرسٹر علی گوہر کے اس بیان کے چند گھنٹے بعد پشاور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کا انتخابی نشان بحال کردیا۔ پی ٹی آئی کے رہنماء اور حامی وکلاء فیصلے سے چندگھنٹے قبل بیرسٹر علی گوہر کے اس بیان کو کہ پشاور ہائیکورٹ سے ہمارے حق میں فیصلہ آرہا ہے پر کہتے ہیں یہ ایک جہاندیدہ وکیل کا کیس کے مختلف پہلوئوں کو سامنے رکھ کر تجزیہ تھا جو درست ثابت ہوا لیکن بعض حلقے اس فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ اور بعض دوسری عدالتوں کے چند حالیہ فیصلوں سے ملاکر دیکھنے پر زور دے رہے ہیں۔ یہ حلقے پی ٹی آئی کے مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے دوسری جانب سپریم کورٹ سے عمران خان اور مخدوم شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانتوں کے بعد عمران خان کی جو پہلے ہی توشہ خانہ اور 190ملین پائونڈ کے ریفرنسز میں گرفتار ہیں جی ایچ کیو پر حملہ سمیت 9 مئی کے واقعات پر درج 12 مقدمات میں گرفتاری ڈال لی گئی ہے۔ ملک میں عام انتخابات کے لئے جاری عمل کے موجودہ مرحلہ میں گزشتہ سے پیوستہ روز سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس میں سپریم کورٹ کے ہی ایک سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس فیصلے سے چند دیگر افراد کے ساتھ سمیع اللہ بلوچ، میاں نوازشریف اور جہانگیر ترین کو فوری فائدہ پہنچے گا۔ گو اس فیصلے پربھی بڑی لے دے ہورہی ہے۔ تحریک انصاف نے اس فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کیا جبکہ مسلم لیگ(ن)نے انصاف کی فتح کا نام دیا۔ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودیوں اور ناراضگیوں کے حوالے سے درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ ماضی میں جب نوازشریف اور جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا تو زبان زدعام بات یہی تھی کہ نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کی ناپسندیدگی کا شکار ہوئے ہیں جبکہ جہانگیر ترین کو اس لئے نااہل کیا گیا کہ یہ تاثر دیا جاسکے کہ عدالت نے توتحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کو بھی نااہل قرار دے دیا ہے۔ اب تاحیات نااہلی کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے والے فیصلے پر بھی مختلف آراء ہیں۔ عمومی طورپر اس فیصلے کو اسٹیبلشمنٹ کی تازہ خواہشات کی تکمیل میں معاون کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ یہ معاملہ صرف ان دو سابق اور نئے فیصلے تک محدود نہیں ماضی کے چند دیگر فیصلے بھی متنازعہ ہوئے زیربحث آئے اور قانونی حلقے بھی تقسیم دیکھائی دیئے۔ یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ایک سیاسی رہنماء کو مافیا قرار دیا اور دوسرے کوصادق و امین۔ گزشتہ75برسوں کے دوران سیاسی مقدمات اور سیاستدانوں کے مقدمات ہر دو کے فیصلوں پرکبھی قومی اتفاق رائے نہیں بن پایا۔ وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں سازشی تھیوریوں کی چنا چاٹ بہت زیادہ فروخت ہوتی ہے۔ بہرطور موجودہ حالات میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اب جبکہ تحریک انصاف کو اس کا انتخابی نشان بلا واپس مل گیا ہے، نوازشریف و جہانگیر ترین کی نااہلی ختم ہوگئی ہے، تحریک انصاف کے مسترد کردہ کاغذات نامزدگی میں سے تقریبا 95فیصد کاغذات نامزدگی منظور کرلئے گئے ہیں تو اب سیدھے سبھائو تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل کے اگلے مراحل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشان الاٹ کرنے کی جو تفصیلات شائع کی ہیں ان میں تحریک انصاف سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشان روکے گئے ہیں۔ جبکہ پرویز خٹک کی تحریک انصاف(پی)کو پگڑی اورپی ٹی آئی نظریاتی کے نام سے قائم جماعت کو بلے باز کا انتخابی نشان دیا گیا۔ پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی سمیت کئی جماعتوں کو ان کے پرانے انتخابی نشان مل گئے۔ پشاور ہائیکورٹ نے بدھ کو تحریک انصاف کا انتخابی نشان بحال کردیا ہے۔اس طوراب ان تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم شروع کردینی چاہیے۔ سیاسی قائدین اور ان کے ہم خیالوں کو بطورخاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ پاکستان، جمہوریت، نظام اور معاشی استحکام کیلئے انتخابات کا اپنے وقت پر پرامن اورشفاف انداز میں منعقد ہونا ازبس ضروری ہے۔ انتخابات کے التواء کیلئے سینیٹ کے سات ارکان کی منظور کردہ قرارداد ہو یا بعض سیاسی رہنمائوں اور ازلی جمہوریت دشمنوں کے مطالبات یہ ساری باتیں درحقیقت عوام کے اجتماعی شعور پر بزدلانہ حملوں کے مترادف ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی قبولیت اور انہیں مسترد کرنے کی سب سے بڑی عدالت عوامی عدالت ہے جس کا فیصلہ ا نتخابی نتائج کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ امر بھی اپنی جگہ درست ہے کہ 8فروری کو ہونے والے انتخابات پر2013اور2018 کے انتخابات سے قبل اور نتائج کے بعد اٹھائے جانے والے سوالات کی طرح کے سوالات موجود ہیں ان حالات میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کی توقع ہی کی جاسکتی ہے۔ اب یہ نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ وہ عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھیں تاکہ پرامن انتخابات کے نتائج سیاسی و معاشی عدم استحکام کے خاتمے کا ذریعہ بن سکیں۔

مزید پڑھیں:  ہند چین کشیدگی