صحت کا کباڑ خانہ

پاکستان صحت کے شعبہ میں علاج او ر سہولیات کے لحاظ سے 195ممالک میں 154 ویں نمبر پر ہے ۔ پاکستان میں صحت کے لیے وفاقی حکومت نے اس برس 24.21ارب روپے رکھے ہیں ۔ جبکہ سنگاپور جس کی کل آبادی پچاس لاکھ ہے اس نے 36 بلین سنگاپوری ڈالرز صحت کے شعبے کے لیے مختص کیے ہیں۔جبکہ ایک سنگاپورین ڈالر کی قیمت اس وقت دو سو گیارہ روپے سے زیادہ ہے ۔یعنی اس چھوٹے سے ملک نے 7596 ارب روپے صحت کے لیے اپنے بجٹ میں رکھے ہیں ۔آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ حکومت پاکستان نے ہر پاکستانی کے لیے صرف ایک سو روپے صحت کے حوالے سے سالانہ بجٹ میں رکھے ہیں ۔ پاکستان نے اگرچہ کسی بھی شعبہ میں مثالی ترقی نہیں کی ہے ۔لیکن صحت اور تعلیم کے شعبے ایسے ہیں کہ ان میں پاکستان کا ترقی نہ کرنا اس کی تباہی کا باعث بنا ہے ۔ پاکستان میں اس وقت ایلوپتھی ، ہومیو پیتھی ، طب اور سینکڑوں دیگر خود ساختہ علاج معالجے کے نظام کام کررہے ہیں ۔ ان میں سے ایلوپیتھی کا نظام ایساہے جسے ورلڈ ہیلتھ ارگنائزیشن یعنی ڈبلیو ایچ او مانتا ہے ۔پاکستان میں دوائیوں کامعیار ڈبلیو ایچ او کے معیارات کے عین مطابق نہیں ہے ۔ اکسفورڈ اکیڈیمک میں شایع شدہ ایک تحقیقی مقالے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں دستیاب ہر پانچ دوائیوں سے صرف ایک معیار کے مطابق ہے باقی چار معیار سے بہت ہی کم تر اور بیشتر صورتوں میں ناقابل استعمال ہیں ۔ آپ کو مارکیٹ میں ایک ہی دوائی مختلف ناموں سے بکتی نظر آئے گی۔پاکستان میں رجسٹرڈ ادویات کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ ہے جبکہ امریکہ میں یہ تعداد صرف انیس ہزار ہے ۔ یعنی وہ ملک جو اپنے شہریوں پر سال میں صرف سو روپے خرچ کرتی ہے وہاں رجسٹرڈ ادویات کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ اور جو ملک اپنے ہر شہر ی پر صحت کے حوالے سے سینتیس لاکھ روپے سے زیادہ خرچ کرتی ہے وہاں رجسٹرڈ ادویات کی تعداد صرف انیس ہزار ہے ۔ اس وقت پاکستان میں دستیاب پچاس سے پچپن فیصد سے زیادہ ادویات معیار سے کم اور ناقص ہیں ۔یہ ڈریپ سے منظور شدہ ہیں ۔ وہ ادویات جو ڈریپ سے منظور شدہ نہیں ہیں ان کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے اور وہ بھی مارکیٹ میں کھلے عام فروخت کی جاتی ہیں ۔ جن کے لیے ہر شہر میں الگ الگ مارکیٹیں ہیں جنہیں ادویات کی بلیک مارکیٹ کہا جاتاہے ۔ جیسے کہ پشاور میں نمک منڈی میں مارکیٹ ہے جہاں ہول سیل پر اپنی اصل قیمت سے کم پر دوائی دستیاب ہوتی ہے اور ان مارکیٹوں سے آپ کو پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک کے بنائی ہوئی ادویات بھی مل جاتی ہیں جس کی منظوری حکومت پاکستان نے نہیں دی ہوتی ۔جسے دوکاندار خرید کر بازاروں میں بیج دیتے ہیں ۔ یہی حال ملک کے دیگرعلاقوں کا ہے جہاں تھوک میں یہ سستی دوائیاں دستیاب ہیں ۔بیشتر ڈاکٹر اپنے وقتی فائدے کے لیے یہی دوئیاں تجویز کرتے ہیں جس کے عوض میں کمپنیاںان کو تحفے تحائف،مختلف علاقوں اور ملکوں کی سیر اور جو ذرا مشہور ہیں ان کو گاڑیاں تک دیتے ہیں۔ڈاکٹرز مریضوں کو ان کی ضرورت سے کئی گنا زیادہ دوائیاں لکھ کر دیتے ہیں ۔ یوں ان دو نمبر ادویات کا کاروبار مسلسل ترقی کررہا ہے ۔ پشاور کے ڈبگری گارڈن میں روزانہ لاکھوں کی تعداد میں پورے صوبے اور افغانستان سے مریض آتے ہیں ۔جن کو وہاں بیٹھے ہوئے بیشتر ڈاکٹرز اور دوائیاں فروخت کرنے والے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ پیسے کے زیاں کے ساتھ ساتھ ان غیر ضروری اور دو نمبر دوائیوں سے ان کی صحت ٹھیک ہونے کی جگہ ان کو مزید پیچیدگیوں کا سامنا کر ناپڑتا ہے ۔ اس کے علاوہ ہر گلی اور بازار میں سینکڑوں حکیم اور ہومیو پیتھی کے ڈاکٹرز موجود ہیں جو انسانی صحت سے کھیلواڑ کررہے ہوتے ہیں ۔روزانہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان عطائیوں کے ہاتھوں اپنی صحت تباہ کررہے ہیں ۔ اور ان کو حکومت کچھ بھی نہیں کہتی ۔ پشاور اور دیگر شہروں میں عطائی بھی ہزاروں کی تعداد میں ہیں ۔یہ مارکیٹ میں دستیاب سستے ترین سٹیرائیڈ ادویات کے نام پر فروخت کررہے ہیں ۔جس سے پاکستان میں انسانوں کی صحت پر نہایت ہی بُرے اثرات پڑ رہے ہیں ۔ پاکستان میں اس کو ختم کرنے کے لیے عملاً کوئی کام نہیں ہورہا ہے ۔ صحت کے شعبہ سے وابستہ افراد کو اپنے پیشے میں انتہائی مہارت حاصل ہونی چاہئیے۔ اس لیے کہ اس کا براہ راست تعلق انسانوں کی جانوں سے ہے ۔ پاکستان میں صحت کے شعبہ سے وابستہ بیشتر افراد اس فیلڈ میں تربیت یافتہ ہی نہیں ہیں ۔ اس وقت پاکستان میں میڈیکل کی جو تعلیم ہے وہ کسی بھی طرح دنیا کے معیارات کے مطابق نہیں ہے۔ پھر جب سے یہ تعلیم پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں میں گئی ہے تب سے ہر برس لاکھوں کی تعداد میں صرف ڈگری ہولڈرز لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے ہسپتالوں اور کلینکوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔ پاکستانی ڈاکٹروں کی حالیہ رینکنگ 89ممالک میںسے 88ویں نمبر پر ہے ۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ پاکستان میں میڈیکل تعلیم کا شعبہ صرف نوٹ چھاپ رہا ہے ۔ جبکہ ایک وقت ایسا تھا کہ سرکاری میڈیکل کالجوں سے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی امریکہ اور دنیا کی دیگر ممالک میں مانگ تھی ۔ اب بھی دنیا بھر میں ہزاروں میڈیکل ڈاکٹرز ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔لیکن گزشتہ ایک دہائی میں میڈیکل کی تعلیم کے معیارات میں اتنی کمی آئی ہے کہ جس کے سبب سے پاکستانی ڈاکٹروں کی اب دنیا میں کہیں بھی مانگ نہیں ہے ۔ پاکستانی صرف پاکستان میں ہی نہیں چین اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک میں جاکر بھی سطحی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرکے آرہے ہیں جس سے صحت کا شعبہ مزید خرابی کا شکار ہے ۔ پھر پاکستان میں اس شعبہ کو دیکھنے والا ادارہ یعنی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل بھی اب مفادات اور پیسے بنانے کی مشین بن گئی ہے جس کو سیاسی حکومتیں اپنے تابع کرنے کے چکر میں تقریباً تباہ کرچکی ہیں ۔ پاکستان میں صرف پاکستانی دوائیاں ہی دستیاب نہیں ہیں بلکہ دو نمبر انڈین دوائیاں بھی یہاں ہر جگہ دستیاب ہیں ۔ یہ دوائیاں جس طرح سمگل ہو کر پاکستان آتی ہیں وہ سب کو معلوم ہے ۔ افغانستان سے یہ زہر پاکستان پہنچ رہا ہے ۔ پھر پنجاب اور سندھ کے سرحدوں سے بھی یہ دو نمبر ادویات سمگل ہوکر پاکستان پہنچ رہی ہیں ۔ جس کو نہ روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اور نہ اس کے فروخت پر کوئی عملی پابندی ہے ۔ پشاور کے کارخانو مارکیٹ میں تو اس کی پوری مارکیٹ ہے ۔ جہاں آپ کو ہر قسم کی انڈین دوائی دستیاب ہوتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی کی دوائیاں بھی سمگل ہوکر آتی ہیں ۔ پاکستان دنیا کا بدقسمت ملک ہے جو کینسر کی بہت ساری دوائیاں نہیں بناتا ۔یہ دوائیاں انڈیا ، بنگلہ دیش اور ترکی سے سمگل ہوکر آتی ہیں ۔ اس وقت پاکستان میں جان بچانے والی اور کینسر ، شوگر اور دیگر مستقل بیماریوں کی دوائیوں کی قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ کوئی بھی عام پاکستانی انہیں خریدنے کی اسطاعت نہیں رکھتا ۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آپ بازار میں جاکر جو بھی دوائی لینا چاہیں وہ باآسانی لے سکتے ہیں ۔جبکہ ہر دوا کے اوپر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ یہ دوا صرف ماہر اور بااختیار ڈاکٹر کے پرچی پر ہی فروخت ہوسکتی ہے ۔ دوائیاں بنانے والے فیکٹریوں میں کام کرنے والے لوگ فارمیسی یا متعلقہ علوم کے ماہر نہیں ہیں ۔ بازار میں دوائیاں بیچنے والے لوگ ان پڑھ ہیں ۔ خیبر پختونخواکی حکومت نے 2017 میں قانون بنایا تھا کہ دوائی صرف فارمسسٹ فروخت کرسکے گا ۔ مگر اس پر ایک دن بھی عمل درآمد نہیں ہوا ۔ کسی بھی دوائی فروش کی دکان پر جائیں وہاں میڑک فیل لڑکے آپ کو دوائی دیں گے ۔ اگر مطلوبہ دوائی ان کے پاس نہ ہوئی تو وہ فارمولا بدل کرکوئی اور دوائی آپ کو دے دیں گے ۔ اور ساتھ ہی وہ دوائی کے استعمال اور مقدار کے بارے میں بھی آپ کو بتا دیں گے۔ پاکستان میں شدید گرمی پڑتی ہے جبکہ ہر دوائی کے اوپر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ اسے پچیس ڈگری سے کم درجہ حرارت میں رکھیں جبکہ بہت ساری ادویات اور انجکشنز کے لیے تو پانچ درجہ سینٹی گریڈ تجویز ہوتا ہے ۔ آپ اپنے شہر ا ور علاقہ میں گھوم کر دیکھ لیں ساری دوائیاں چالیس ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت میں پڑی ہوتی ہیں ۔ پاکستان اس وقت معدے کی ادویات استعمال کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے ۔ ہر تیسرا بندہ اومپروزول استعمال کررہا ہے ۔ یہ اتنی خطرناک دوائی ہے کہ اس کے مسلسل استعمال سے آپ مستقل شوگر کے مریض بن سکتے ہیں اور ساتھ ہی کئی دیگر پیچیدگیوں کا شکار ہوسکتے ہیں ۔لیکن ہمارے بیشترڈا کٹر یہ ز ہر دوا کے ساتھ دینا ضروری سمجھتے ہیں ۔ مریض باقی دوائیاں تو وقت کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے لیکن اسے معدے کی بے ضرر دوائی سمجھ کر مستقل استعمال کرتا چلا جاتا ہے ۔پاکستان میں دستیاب معدے کی یہ دوائی انتہائی ناقص درجے کی ہے ۔ لیکن اس جاہل معاشرے میں یہ زہر مسیحا ہی پھیلا رہے ہیں ۔ اب تو شہر کی ہر گلی میں دو نمبر دوائیاں بنانے کی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں گھروں میں بنائی گئی ہیں ۔ پاکستان میں جہاں اور بہت سارے مسائل ہیں وہاں اس کی بیشتر آبادی صحت کی سہولیات سے محروم ہے اور حکومت اس سلسلے میں کوئی مثبت قدم نہیں اٹھا رہی ۔ پاکستان میں ایڈز ،یرقان اور دوسری موذی بیماریاں تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں ۔ جس کا سدباب کرنا بہت ضروری ہے ۔ اس ملک میں مناسب قانون سازی اور اس پر عمل درآمد اگر کیا جائے تو اس پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔دوائیوں کے دو نمبر کاروبار میں وہ سب لوگ شریک ہیں جو اس کام کو روکنے کے لیے متعین ہیں۔ جہاں چوکیدار ہی چور بن جائے تو وہاں کی حفاظت کون کرے گا ۔ حکومت وقت کو دوائیوں کے ان بلیک مارکیٹوں کو فوری بند کردینا چاہئیے اور ساتھ ہی ایک ٹاسک فورس بنا کر صحت کے ساتھ کھیلواڑ کرنے والے عطائیوں اور دوا فروشوں اور دوا سازوں کو قانون کے شکنجے میں لانا چاہئیے ۔ اور ساتھ ہی پورے ملک میں دنیا کی طرح ڈاکٹروں کو پابند بنایا جائے کہ وہ دوائیوں کے جنریک نام تجویز کریں ۔ کمپنیوں کے دئیے ہوئے نام نہ لکھیں جس سے مہنگی دوائیوں کی جگہ سستی دوائی مریضوں کو دستیاب ہوگی ۔ اور پاکستان میں دوائیوں کی قیمتوں کا تعین حکومت کرے نہ کہ کمپنیوں اور اشخاص کو یہ اختیار دیا جائے۔ اگر حکومت یہ چند اچھے کام کرے تو اس سے پاکستان میں صحت کے مسائل سے دوچار پریشان حال لوگ کچھ سکھ کا سانس لے سکیں گے ۔ ورنہ صحت کے اس کباڑ خانہ میں کچھ عرصہ بعد ان انسانوں کے سارے اعضاء ناقابل استعمال ہو جائیں گے ۔ اور یہ سب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہوگا ۔

مزید پڑھیں:  پاکستان کو ایک زرعی مُلک رہنے دیں