شہرمیں پھیلے تابوت مراکز

پشاور کے علاقے رنگ روڈ کبوتر چوک میں سیلنڈر و ں کی دکان میں دھماکہ سے بچوں سمیت 18 افراد جھلس کر زخمی ہونا افسوسناک واقعہ ہے جس کا سبب عدم احتیاط اور غیرقانونی طورپر سیلنڈروں کی بھرائی قرار دیا جا سکتا ہے ساتھ ہی ساتھ پلاسٹک کے بڑے بڑے تھیلوں میں گیس کا عمل گھروں اور بازاروں میں بھی جاری ہے جگہ جگہ فان گیس اور پلاسٹک کے تھیلوں میں گیس بھرنے کی غیرقانونی بھرائی سے پورا شہر خطرے میں ہے اب توانتظامیہ کے تابوت نکلنے کاانتظار بھی ختم ہوچکا ہے مگر دھندہ پھربھی جاری ہے پولیس کے مطابق دھماکہ تھانہ شاہ پور کی حدود رنگ روڈ کبوتر چوک میں ہوا ہے جہاں سلنڈر کی دکان میں اچانک دھماکہ ہوا۔ واضح رہے کہ شہر بھر میں جگہ جگہ گیس سلنڈرزکی دکانیں کھلی ہیںجہاں احتیاط کے تمام ترتقاضوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے سیلنڈروں سے سیلنڈر بھرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سوئی گیس کے شدید ترین بحران اور لوڈ شیڈنگ کے باعث شہریوں کو ایل پی جی سلینڈر استعمال کرنا پڑ رہا ہیں جس کی وجہ سے سلینڈر پھٹنے کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ اس وقت سی این جی کے بند ہونے کے باعث گاڑیوں بالخصوص پبلک ٹرانسپورٹ سوزوکی ٹیکسی اوررکشہ ڈرائیور بھی فان گیس کی چھوٹی سلینڈر گاڑی کے ا ندر یا پھرزیادہ سے زیادہ ڈگی میں غیر محفوظ انداز میں رکھ کرگاڑیاں چلا رہے ہیں جنہیں اگر چلتے پھرتے تابوت اور خود کش گاڑیاں قرار دیا جائے تومبالغہ نہ ہو گا یہ بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں کہ صوبہ بھر کے چھوٹے شہروں وقصبات میں اور بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور میں یہ دھندہ عروج پر ہے سی این جی سروس معطل کرنے کے باوجود شہریوں کوکھانا پکانے کے اوقات میں بعض علاقوں میں دن توکیا رات کے کسی پہر بھی گیس میسر نہیں جو غیرقانونی سلینڈر بھرنے والوں کے دھندے کوچارچاند لگانے کا باعث بن رہا ہے عوام کے پاس جانیں خطرے میں ڈال کر غیر محفوظ طریقے سے بھری گیس سلینڈرکے غیر محفوظ استعمال کے اور کوئی چارہ نہیں شہر میں جہاں گیس کے میسر آنے کی صورتحال قدرے بہتر ہے وہاں بھی بعض علاقے اور گھروں میں گیس نہیں آتی جس کے باعث وہاں بھی سڑکوں کے کنارے سلینڈروں سے سلینڈر بھرنے کا دھندہ عروج پر ہے ۔حیات آباد جیسے علاقے سے لے کر شہر کا کوئی حصہ ایسا نہ ہو گا جہاں یہ خطرناک دھندہ جاری نہ ہو اور انتظامیہ نے آنکھیں بند نہ کرلی ہو۔عوام تو ضرورت مند اندھا ہوتا ہے کے مصداق آنکھیں بند کرکے اس مہنگے اور پرخطر متبادل کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں لیکن انتظامیہ کوکم از کم اتنی زحمت توکرلینی چاہئے کہ شہری آبادی اور گنجان علاقوں میں اس طرح کے پرخطر دھندے کو کسی ایسے علاقے میں منتقل کرنے کی ذمہ داری نبھائے جہاں محولہ قسم کے واقعات کے باعث پوراعلاقہ اور پورا شہر خدانخواستہ کسی بڑے اور سنگین واقعات کی زد میں تو نہ آئے ۔ پلاسٹک کے تھیلوں میں گیس بھر کر استعمال کرنے کا عمل کس قدر پرخطر ہے اور گیس پریشر کوبڑھانے کے لئے کمپریسر کاغیر قانونی استعمال دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے ساتھ ساتھ خطرات کا باعث بھی ہے یہ سب کچھ انتظامیہ اور گیس سپلائی کرنے والے محکمے کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے مگر کسی کے کان پر جو تک نہیں رینگتی نگران وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کواس سنگین مسئلے کا فوری طور پر نوٹس لے کر سخت ہدایات جاری کرنے کی ضرورت ہے اس دھندے کو جتنا جلد ممکن ہوسکے روکا جائے اور شہریوں کو متبادل ایندھن کی فراہمی کا محفوظ طریقے سے فراہمی پر توجہ دی جائے ۔سرکاری اداروں کو مزید کسی بڑے حادثے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے گزشتہ روز جوخوفناک حادثہ رونما ہوا ہے اس کے بعد اس حوالے سے کسی مزید صبر و برداشت کے رویئے کی گنجائش نہیں تاخیر کی صورت میں شہر میں جگہ جگہ آبادی کے اندر موجود اور خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں قدیم تعمیرات ہیں جس میں لکڑی کا استعمال زیادہ ہے یا پھر ایسے علاقوں جہاں پٹرول پمپوں کے آس پاس غیر قانونی سلینڈر بھرنے کا دھندہ جاری ہے ان کے خلاف بالخصوص جبکہ شہر بھر میں بالعموم اس پرخطر کاروبار کے خلاف قانون کو بلاتاخیر حرکت میں لانے کی ضرورت ہے ۔توقع کی جانی چاہئے کہ اس سلسلے میں مزید ڈنگ ٹپائو کا رویہ سامنے نہیں آئے گا۔

مزید پڑھیں:  مگر یہاں تو ظلم پر ہے احتجاج بھی غلط