چند یادیں

ایک نئے سال نے بڑے دھوم دھڑکے سے آنکھ کھولی ہے ۔ آتش بازی ‘ ہلڑ بازی ‘ مبارکبادیں ‘ تحفے تحائف ‘ میری سوچ ذرا پرانی ہے شاید فرسودہ ‘ یہ لمحہ لمحہ قدم بڑھاتا وقت’ یہ تو نقصان کی کہانی سناتا ہے ۔ اس کے ہاتھ میں عمر کے انجام کا کتبہ ہے جو دھیرے دھیرے مٹی کے کسی نامعلوم ڈھیر کی جانب بڑھ رہا ہے لیکن لوگ خوشیاں مناتے ہیں ‘ آسمان آتش بازی اور پٹاخوں کی روشنی اور رنگوں سے تمتما رہا ہوتا ہے ‘ اور وہ انسان جسے پل کی خبر نہیں نئے سال کی منصوبہ بندی کرتا ہے ۔ یہی اس زندگی کاحسن بھی ہے کہ انسان ثبات کاہاتھ تھام کر بے ثباتی کی منصوبہ سازی کرتا ہی رہتا ہے اور کبھی سوچتا تک نہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں اور اس سب کا کبھی کوئی فائدہ بھی ہوگا یا نہیں۔ فائدہ اور نقصان کی بات بھی عجب ہے ‘ سود و زیاں کا اصل تعین جہاں اور جیسے کیا جانا چاہئے اس سے بے خبر ‘ انسان صرف اس زندگی کے محدود دائروں میں مسلسل سفر کرتا رہتا ہے ‘ اور یقین رکھتا ہے کہ منزل کبھی آئے گی حالانکہ اس زندگی کی گزر گاہ کی منزل تو کہیں اور ہے ‘ پھر سوچتی ہوں کہ اس گزرگاہ سے کتنے ہی کامیاب لوگ میری ہی آنکھوں کے سامنے سفر کرکے منزل کی جانب سدھار گئے ۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کی منزل کہیں اور ہے اور وہ اپنی اس منزل کے لئے کوشش کرتے چلے گئے ۔ ہم جیسے لوگ انہیں دیکھتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں ان کی یاد میں بستے ہیں لیکن ہمارے ناتواں کندھوں میں کبھی اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ خود اتنی ہی بہتری اور بھلائی کا وزن اٹھا سکیں۔ ہمارے قدم فلاح کے راستوں پر چلتے ہوئے بوجھل ہوتے ہیں لیکن وہ لوگ جو ہمارے لئے روشن مینارے رہے وہ آج بھی ہماری آنکھوں میں موجود ہیں۔ ان کے لہجوں کی روشین ہمارے کانوں میںرس گھولتی ہیں میں سوچوں تو میری مٹھیوں میں یادوں کے ایسے کئی جگنو قید ہیں۔ میرے دادا ‘ ان کی وہ شفیق مسکراہٹ اور ان کا پر نور چہرہ وہ جس طرح بات کیا کرتے تھے کیسے اتنے سال گزر جانے کے باوجود بھی ان کا لہجہ اور ان کی باتیں میرے آس پاس ہی رہتے ہیں ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں تمہیں پڑھنے کے لئے جامعة الازہر بھیجوں گا وہ چلے گئے اور ان کی یہ خواہش خاموش ہو گئی اور ابھی چند دن پہلے میں جامعة الازہر دیکھ کر آئی ہوں ۔ ان کی خواہش میرے کانوں میں بار بار گونجتی رہی میں نے سوچا میں یہاں آکر پڑھ تو نہیں سکی لیکن میں وہ جگہ دیکھ تو لوں جہاں پڑھانے کے خواب میرے دادا دیکھا کرتے تھے ‘ اور وہیں قاہرہ میں جسے میناروں کا شہر کہا جاتا ہے کیونکہ اس شہر میں لاتعداد مساجد ہیں میری ملاقات عمربن العاص کی مسجد سے بھی ہوئی جو حضرت عمر کے زمانے میں مصر کے گورنر مقرر کئے گئے تھے اور جب نیل سوکھ گیا تھا اور لوگ ایک معصوم لڑکی کوقربان کرنے کے لئے سجا سنوار کر لے کر آئے تھے تب حضرت عمر کا وہ خط جو انہوں نے نیل کو لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ اگر تو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو رکا رہ اور اگر اپنے رب کی مرضی سے بہتا ہے تو جاری ہو جا اور پھر آج تک نیل میں کبھی پانی کم نہیں ہوا۔
وہیں اسی شہر میں گھومتے پھرتے مجھے راحیل باجی کاایک پیارا پیغام موصول ہوا راحیل باجی سے میرا انس دن بہ دن بڑھتا جاتا ہے ۔ میں نے اپنی بہن کو کہا کہ ان کا پیغام آئے تو وصول کرنے سے پہلے ہی میں خوش ہو جاتی ہوں۔ ان کی ہربات مجھے پیاری لگتی ہے ۔ یہ محبت میری وراثت کی محبت ہے۔ میرا دادا اور میرے پاپا کو قاضی صاحب سے جو محبت تھی جس محبت میں ہمیں باندھا گیا اور جس محبت کی بڑھوتری راحیل باجی سے ہر بار ملنے سے ہوتی ہے اس محبت نے مجھے قاضی حسیںاحمد صاحب کو آغا جی کہہ سکنے کی اجازت دی اور جو محبت ہر سال چھ جنوری سے چند دن پہلے ہی میرے دل کو گرفت میں لے کر ملول کرنے لگتی ہے جس منصورہ میں میں اب رہتی ہوں ‘ اسی گھر سے میرے دادا ہر اذان کے ساتھ لبیک کہتے مسجد جایا کرتے تھے اسی منصورہ کی سڑک پر آغا جی کا دکھ جانا ایک معمول کی بات تھی اسی منصورہ کی مسجد میں اگلی صفوں میں وہ خواتین موجود تھیں جو ہمارے لئے ‘ ہماری دادای کی دوستی کی بہ نسبت سے دادی تھیں لیکن اب کوئی نہیں ہے ۔ ایک خالی ‘ خاموش منصورہ ‘ جہاں میں تروایح کے لئے مسجد جائوں تو کوئی بھی شناسا چہرہ نہیںملتا ۔ پھر بھی ایک شفیق منصورہ کہ جس کے گیٹ میں داخل ہوتے ہی میں محفوظ ہوں اپنے گھرمیں ہوں ‘ مسجد کے سامنے سے گزرتے ہوئے میری آنکھیں آج بھی میرے دادااوران کے رفقاء کو دیکھ سکتی ہیں ۔ پاپا کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی قاضی صاحب کی شفقت نے ہمارا بہت ساتھ دیا ‘ اور میں اس محبت کی وفاداری میں آجبھی خود کو مستحکم سمجھتی ہوں۔ میں نہیں جانتی کہ میں نے اپنے والد ‘ اپنے دادا کی محبت میں ان کی فرمانبرداری میں قاضی صاحب سے محبت کی ‘ راحیل باجی سے محبت کی ‘ یا یہ ان کی شخصیات کی سحر انگیزی ہے یا پھر دونوں لیکن میرارب جانتا ہے کہ تین اپریل ‘ تین اکتوبر اور چھ جنوری ہر بار مجھے ‘ ہر سال یتیم کرتے ہیں۔ ہر سال انہی تاریخوں میںمنصورہ خاموش ہوتا ہے اداس ہوتا ہے ۔ میرا ہاتھ تھامتا ہے اور کہتا ہے کہ ملال نہ کرو ‘ پچھلی گلی کا کونا کتنی محبت سے تمہیں خوش آمدید کہتا ہے ۔ اس روشن گھر میں تمہاری ایک اور بہن رہتی ہے ۔ابھی اتنی خاموشی نہیں ‘ اور پھرمیرے کانوں میں اپنی پیاری دادای کی آواز گونجتی ہے وہ کہتی ہیں راحیل مجھے بہت پیاری ہے ‘ وہ بہت بہادرلڑکی ہے ‘ میں سوچتی ہوں یہ میرے بڑے کیا کمال لوگ تھے جاتے جاتے اپنی محبتیں ہماری مٹھیوں میں جگنوئوں کی طر ح بند کر گئے تاکہ کہیں ہم تنہائی کا شکار نہ ہوں ‘ محبتوں کے بغیر بنجر نہ ہوجائیں شاید اسی لئے تین اپریل اور تین اکتوبر کے ساتھ چھ جنوری بھی شامل ہوا اور شاید اسی لئے مجھے یقین ہے کہ میری ایک بہن میرے پڑوس میں رہتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  پاکستان کو ایک زرعی مُلک رہنے دیں