نئی حلقہ بندیوںپر اٹھتے سوال

پشاور میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کم کرنے اورنئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے امیدوار اور ووٹرز دونوں پریشانی سے دو چار ہو گئے ہیں ‘ اس سلسلے میں نہ تو حکومت اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کی جانب سے عوام کے لئے آگاہی مہم شروع کی گئی ہے جبکہ ووٹرلسٹوں میں تبدیلی کی وجہ سے اکثر ووٹروں کا اندراج کئی کلو میٹر دور پولنگ سٹیشنوں پر کئے جانے سے اتنی دور تک ووٹرز جا کر اپنا ووٹ کیسے او رکیونکر پول کرسکیں گے جواصولی طور پر نہ صرف غلط ہے بلکہ ووٹروں کے ساتھ زیادتی بھی ہے واضح رہے کہ 2018ء میں پشاور سے صوبائی اسمبلی کے 14 انتخابی حلقے تھے ‘ لیکن گزشتہ سال کی مردم شماری اور خانہ شماری کے نتائج کی بنیاد پر ایک نشست کم کئے جانے کی وجہ سے ووٹرز کو مختلف حلقوں میں تقسیم کردیا گیا اسی طرح دیگر حلقوں میں بھی ویلیج اور نیبرہڈ کونسلوں میں ردوبدل کی وجہ سے ووٹرز کی ترتیب بھی تبدیل کر دی گئی یوں لاتعداد ووٹرزکے پولنگ سٹیشنز تبدیل ہو گئے ہیں اورانہیں انتخابی اصول وضوابط کے تحت قریبی علاقوں کے پولنگ سٹیشنوں کی جگہ دور دراز پولنگ سٹیشنوں پر جانا پڑے گا جس سے کئی قسم کی پیچیدگیاں جنم لیں گے ۔ اس کا علاج کیا ہو گا اس بارے میںالیکشن کمیشن کو ضرور سوچنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  یقین نہیں آتا