کلاشنکوف کلچر

پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ پاکستان سے کلاشنکوف کلچر ختم کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دئیے کہ مجھے بھی آفر کی جاتی رہی کہ آپ کلاشنکوف کا لائسنس لیں، منشیات اور کلاشنکوف نے پاکستان کو تباہ کر دیا۔ انہوں نے ریمارکس دئیے کہ کالے شیشوں والی گاڑی کے ساتھ لوگ کلاشنکوف لے کر جاتے ہیں، پولیس کی ان سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ سپریم کورٹ نے ملک بھر میں ممنوعہ اسلحہ کے جاری شدہ لائسنسوں کی تمام تفصیلات طلب کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ، تمام صوبائی ہوم سیکرٹریز، انسپکٹرز جنرل پولیس کو نوٹس جاری کر دئیے ہیں۔کلاشنکوف کلچر کے حوالے سے چیف جسٹس کے ریمارکس اوراحکامات کے بعد توقع کی جانی چاہئے کہ اس ضمن میں متعلقہ حکام مناسب کارروائی یقینی بنائیں گے ،مشکل امر یہ ہے کہ کلاشنکوف رکھنے اور کلاشنکوف بردار گارڈز پھرانے والے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے شاید طاقتور ہیں، پولیس توبے چار ی ڈر کے مارے ان کو روکنے کی ہمت نہیں کر پاتی اس کی وجہ پولیس کی کم ہمتی نہیں بلکہ پولیس پر دبائو نہ ہو اور حکومت ایک عزم کے ساتھ بلا امتیاز کارروائی کی ہدایت کرے تو اصلاح احوال ممکن ہے، بہرحال ایسا ہونے کی توقع نہیں عدلت عظمیٰ ہی اس امر کو یقینی بناسکتی ہے کہ وہ سخت احکامات کے ذریعے اس لعنت کے خاتمے کویقینی بنائے ،انتخابات کے موقع پر امیدواروںکی سکیورٹی حکومتی ذمہ داری ہے مگر کچھ وی آئی پی کلچراورووٹروں کو لبھانے کیلئے اور کسی حد تک خود حفاظتی کے اقدامات کے تحت مسلح افراد کے جتھے لے کر چلنے کے مظاہر سامنے آئے ہیں جن کی خیبر پختونخوا حکومت اور پولیس کی جانب سے حوصلہ شکنی کیساتھ ساتھ پولیس کو ان امیدواروں کے تحفظ کے اقدامات یقینی بنانے پر توجہ کی ضرورت ہے ،پولیس اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بعد ہی ان افراد کاراستہ روک سکتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  بار بار کی خلاف ورزیاں

مہنگی ادویات کا بیوپار
خیبر پختونخوا میںایک جانب جہاں جعلی ،غیر معیاری اور سمگل شدہ ادویات کی بھر مار ہے وہاں باربار ضروری ادویات کی قلت پیدا کرکے مہنگے داموں فروخت اور قیمتوںمیں اضافے کی راہ ہموار کرنے کا یکے بعد دیگرے سلسلہ سامنے آتا ہے جس میں متعلقہ حکام کی ملی بھگت اور ناکامی کوئی پوشیدہ امر اس لئے نہیں کہ ان عناصر کے خلاف کبھی بھی ٹھوس اقدام نہیں ہوتا، ستم بالائے ستم یہ کہ ایک جانب جہاں ادویات کی دکانوں پر ان ادویات کی ناپیدگی ظاہر کی جاتی ہے وہاں نمک منڈی میں ہول سیل کی دکانوں اور گوداموں میں یہ ادویات وافردستیاب ہوتی ہیں،ایسے میں ادویات کی ناپیدگی حقیقی طور پرگمراہ کن پراپیگنڈہ اور مہنگے داموں فروخت کی سوچی سمجھی سازش ہی ہوتی ہے جس میں متعلقہ حکام کی ملی بھگت بعید نہیں بلکہ ان کی معاونت اور ملی بھگت کے بغیر تو ایسا ممکن ہی نہیں، ایک مرتبہ پھر خیبرپختونخوا میں میڈیسن مارکیٹوں میں نمونیہ بخار کے علاج کیلئے ڈاکٹروں کی جانب سے تجویز کی جانے والی ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کرکے اس کی قیمت میں ہزاروں روپے کا اضافہ کر دیا گیاہے اور دس گولیوں کا سٹرپ15سو روپے پر فروخت ہونے کی شکایات ہیں ۔ دوسری جانب سرکاری ہسپتالوں اور نجی کلینکس پر بھی ادویات موجود نہیں جبکہ نمونیہ سے بچائو کی ویکسین کو بھی مارکیٹ میں شارٹ کردیاگیاہے ۔اس امر کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ نمونیہ کے مریضوں کی بڑی تعداد سامنے آنے کے بعد کس کمپنی اور تھوک فروشوں نے ملی بھگت کی اور ادویات ناپید کر دیں، ان کے خلاف بلاتاخیر سخت کارروائی ہونی چاہئے اور ثابت کیاجائے کہ حکومتی ادارے فعال اور اپنا کام کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  پاکستان کو ایک زرعی مُلک رہنے دیں