مسکت جواب

ایرانی اقدام کے جواب کا پاکستان کی جانب سے جس انداز میں جواب دینے کا اعلان کیاگیا تھا اس پر سنجیدگی اور کامیابی کے ساتھ عملدرآمد کیا گیا ۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں بھر پور جوابی کارروائی کرتے ہوئے دہشت گرد گروہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس میں متعدد دہشت گرد مارے گئے۔دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے ایران کے علاقے سیستان میں دہشت گرد گروہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور ان کے کئی ٹھکانوں پر حملے کئے۔دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کے دوران متعدد دہشت گرد مارے گئے پاکستان نے آپریشن مرگ بر سرمچار نامی آپریشن میں کئی دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔دفتر خارجہ نے کہا کہ یہ نام نہاد سرمچار بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہاتے رہے، کارروائی مصدقہ انٹیلی جنس کی روشنی میں کی گئی ،ایک برادر اسلامی ملک کے عاجلانہ اقدام کے جواب میں تحمل و برداشت کا مظاہرہ احسن تھا اور پاکستان نے متعدد مرتبہ ایران کی طرف سے سرحدی حملوں کاجواب نہیں دیا لیکن گزشتہ روز کے اقدام کا مسکت جواب نہ دینے کی گنجائش اس لئے نہ تھی کہ خواہ کوئی بھی ہو اس قدر تحمل و برداشت کا مظاہرہ قومی مفاد اور عوام کی توقعات کے منافی ہوتا اور اس کا منفی تاثر قائم ہوتا۔ گزشتہ روز کے واقعے پر ایرانی قیادت کی طرف سے معذرت یا افسوس کا اظہار کیا جاتا تو صرف نظر کی گنجائش تھی ایسا نہ ہونے پر بہرحال مسکت جواب ناگزیربن گیاتھا اور پاکستان نے چوبیس گھنٹے کے اندر حساب برابر کرکے دکھا دیا ،قبل ازیں فروری 2019ء میں بھی پاکستان نے بھارت کے ایک اقدام کا اسی طرح عملی جواب دیا تھا پاکستان کی سلامتی و خود مختاری پر حملے کا جواب مسلح افواج کی اولین ذمہ داری اور فرض ہے اور اس ضمن میں قوم پاک فوج سے توقعات بھی رکھتی ہے اور ان کی پشت پر کھڑی بھی ہوتی ہے ،ایران کی سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا سب سے بڑا ثبوت چاہ بہار سے ”را” کے نیٹ ورک کے سربراہ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری تھی ،پاکستان اگرچاہتا تو اس وقت بھی کارروائی کرسکتا تھا مگر تحمل کا مظاہرہ کیاگیا اس کے باوجود بھی پاکستان نے ایران ‘سعودی عرب اختلافات ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا مگر دوسری جانب سے مسلسل معاندانہ طرز عمل اختیار کیاگیا جس کا ثبوت گزشتہ روز کاایرانی اقدام ہے جس کا مسکت جواب دے کر حساب برابر کیاگیا۔ خطے کے امن کے حوالے سے یہ صورتحال تشویش کا باعث امر ہے، اس وقت صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے، کیونکہ پاکستان نے تہران سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے اور تمام اعلیٰ سطحی دوطرفہ دوروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں ایرانی سفیر کو بھی اسلام آباد واپس آنے سے روک دیاگیا ہے، دو پڑوسی ممالک کے درمیان اس طرح کی صورتحال ہر دو ممالک کے مفاد میں نہیں ،بنا بریں رشتوں میں دراڑ کو روکنے کی فوری ضرورت ہے۔ چین، جو دونوں ریاستوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھتا ہے، اور”دونوں فریقوں سے تحمل سے کام لینے”پر زور دیا ہے، اس حساس معاملے کو حل کرنے میں مدد کیلئے احسن کردار ادا کر سکتا ہے۔دریں اثناء یہ بھی سچ ہے کہ مختلف غیر ملکی اداکار پاکستان ایران تعلقات میں مستقل تعطل دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے دونوں ممالک کے دارالحکومتوں کو چاہیے کہ وہ کشیدگی کو روکیں اور امن بحال کرنے کیلئے کام کریں۔معاملات ٹھنڈے ہونے کے بعدبارڈر سکیورٹی مینجمنٹ کیلئے موجود میکانزم کو مشترکہ آپریشنز کے ذریعے کسی بھی ریاست کی سلامتی کیلئے خطرہ بننے والے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کیلئے فعال طور پر استعمال کیا جانا چاہئے۔کسی بھی صورت میں یکطرفہ اقدامات کے ذریعے ریاست کی خودمختاری کو پامال نہیں کیا جانا چاہئے۔ ایرانی حکام کو خاص طور پر ایسے حملوں کے اعادہ کو روکنے کیلئے کام کرنا چاہئے۔ایسے وقت میں جب تنازعات کی آگ خطے کو بھسم کرنے کا خطرہ رکھتی ہے، اس بحران کو بڑھنے سے روکنے کیلئے دونوں فریقوں کو تحمل اور مدبرانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کی اصل حقیقت