قومی امانت کے تحفظ کی ضرورت

اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی توشہ خانہ اور 190ملین پائونڈ نیب ریفرنسز کے موقع پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دئیے کہ توشہ خانہ کے تحائف ریاست پاکستان کی ملکیت ہوتے ہیں اسی کے پاس رہنے چاہئیں اور توشہ خانہ حکومت کی تجوری ہے اور سیکرٹری کابینہ اس کا رکھوالا ہے مگر بدقسمتی سے رکھوالے نے سب کے لئے دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی سیل لگی ہوئی ہے کہ50فیصد آف’ 20فیصد آف ہے۔ یہ تحائف واپس کرنے چاہئیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے وکیل کو مخاطاب کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ آپ کی حکومت نے احتساب عدالت کے ججز کی منظوری ہی نہیں دی تھی، کیسے قابل لوگوں کی سفارش کر کے بھیجتے تھے تو وزارت قانون اس پر بیٹھ جاتی تھی۔ امر واقع یہ ہے کہ توشہ خانہ کی گنگا میں صرف سابق وزیر اعظم عمران خان نے ہی ہاتھ نہیں دھوئے بلکہ قبل اس کے تقریباً سبھی برسراقتدار افراد اور ان کے اہل خانہ اور سول و ملٹری بیورو کریسی نے بھی دل کھول کر ہاتھ صاف کرتی رہی ہے ہمارے تئیں اصولی طور پر تو وہ قانون ہی غلط ہے جس میں حکمران سول و ملٹری اور بیورو کریسی کوکم قیمت پر توشہ خانہ سے تحائف حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے یہ قانون کسی اور کانہیں بلکہ انہی افراد ہی کااپنا بنایا ہوا ہے جہاں قانون کی پرواہ کئے بغیر مال مفت دل بے رحم کا رواج چلا آرہا ہو وہاں قانون کی کمزور چھتری ہی میسرآئے تو پھر اس کاغلط استعمال فطری امر ہے ۔ بہرحال قانونی معاملات سے قطع نظراگردیکھا جائے تو یہ ملک و قوم کی امانت کا دیانتداری سے استعمال اور حصول کا معاملہ ہے دیگر مستفیدین چونکہ تجربہ کار تھے اس لئے انہوں نے توشہ خانہ سے تحائف حاصل کرنے کے بعد کوئی ایسا نکتہ نہیں بنایا جوقابل گرفت ہو جبکہ ان کے مقابلے میں سابق وزیر اعظم کاطریقہ کار کچھ مختلف اور قابل اعتراض تھاجس کا خمیازہ وہ آج بھگت رہے ہیں حالانکہ استفادہ ہر کسی نے کیا ہے اب چونکہ معاملہ عدالت میں ہے اس کا فیصلہ عدالت سے آناہے لیکن من حیث المجموع جو صورتحال اس ضمن میںزیر نظر ہے اس حوالے سے ججوں کے ریمارکس ہی کافی ہیں اس معاملے کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ آئندہ اس طرح کے مال مفت دل بے رحم کے مظاہر شاید نہ ہوں۔ایک اہم بات جج نے یہ کہی ہے کہ یہ تحائف واپس کرنے چاہئیں اصولی طور پرجس جس دور میں اور جس جس شخصیت نے مروجہ قانون کے تحت تحفہ اور دیگر اشیاء ہتھیائے ہیں ان کی واپسی مشکل ہے ایسے میں آئندہ اس طرح کے استفادے کی راہ روکنا ہی ممکن نظر آتا ہے اور یہ راستہ اختیار کیا جانا چاہئے توشہ خانہ سے اشیاء کے حصول کی صرف حکمرانوں اور سول وملٹری بیور و کریسی ہی کو موقع نہیں ملنا چاہئے بلکہ ایک کھلی اور شفاف بولی ہونی چاہئے جس میں ہر کسی کو شرکت کی اجازت ہو اور سب سے زیادہ بولی دینے والے شخص کو مطلوبہ چیزملنی چاہئے یہی شفافیت اور قومی مفاد کاتقاضا ہے جس پر اعتراض کی گنجائش نہیں جہاں تک عدالتوں میں تقرری کے معاملے کا سوال ہے بدقسمتی سے یہ صرف گزشتہ ایک دور ہی میں ایسا نہیں ہوا جس کا جج کو شکوہ ہے بلکہ یہ بھی ہر حکومت کی روایت چلی آرہی ہے کہ وہ اپنے دو رمیں من پسند افراد ہی کو جج مقرر کرنے کی سعی میں رہتی ہے جس کے نتیجے میں عدالتیں بھی بدقسمتی سے منصفین کی بجائے فریق اور حامی و مخالفین میںتقسیم ہوئیں اور ان کے فیصلوں پر انگشت نمائیاں ہوئیں حال ہی میں سپریم کورٹ کے جن دو ججوں نے استعفیٰ دیا ہے ان کا دور بہرحال خاص طور پر قابل ذکر اس لئے ہے کہ ان کے باعث ملکی معاملات میں بڑا الجھائو رہا بدقسمتی سے اس طرح کے افراد کے راستے سے ہٹ جانے کو کافی سمجھ کر صرف نظر اختیارکی جاتی ہے حالانکہ اصولی طور پر ان کا سخت اور کڑا احتساب ہونا چاہئے جب تک بددیانتی مفاد پرستی اور ملکی مفادات پر ذاتی و سیاسی و گروہی مفادات کو مقدم رکھا جاتا رہے گانہ سیاست پاک ہو گی نہ ادارے مستحکم ہوں گے اور نہ ہی عدلیہ میں انصاف کا ترازو متوازن رہے گا یہ سبھی ایک دوسرے سے مربوط عوامل ہیں جن کی تصحیح اور قبلہ کی درستگی ضروری ہے اور جب تک ایسا نہیں ہو گا ان عوامل و مسائل سے چھٹکارا بھی ممکن نہیں۔

مزید پڑھیں:  یقین نہیں آتا