الیکشن کمیشن کیا کرسکتی ہے ؟

الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک میں عام انتخابات کے موقع پر امیدوار وں کو ایک مقررہ حد تک انتخابی اخراجات کا پابند بنایا گیا ہے لیکن اس کی مانیٹرنگ اور چھان بین کا کوئی طریقہ کار نہیں اور نہ ہی شائد ایسا ممکن ہو ،ہمارے نمائندے نے اس امر کی درست نشاندہی کی ہے کہ ملک بھر میں لاکھوں انتخابی دفاتر میں اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں ،مشکل امر یہ ہے کہ ہر انتخابات کے موقع پر ایسا ہوتا ہے مگر اس مرتبہ شاید ہی جیب دیکھے اور پارٹی فنڈز میں لاکھوں کروڑوں روپے جمع کئے بنا کسی کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہو، اس صورتحال نے جمہوری عمل کو سینیٹ کے انتخابات کی طرح رؤسا کا کھیل بنا دیا ہے، خیبر پختونخوا کے ایک دور افتادہ ضلع جو بوریا نشین علماء کے انتخاب کی شہرت کا حامل تھا اب وہاں پر بھی ایسے ہیوی ویٹ اتارے گئے ہیں جو کھلے عام وہ سب کچھ کرنے میں مصروف بتائے جاتے ہیں جس کا اگر نوٹس لیا جائے تو بہت کچھ سامنے آ سکتا ہے یہ تو ایک مثل نمونہ از خروار ے ذکر ہوا وگرنہ کم ہی ایسے حلقے ہوں گے جہاں دولت کا جادو سر چڑھ نہ بولتا ہو، اس کا نوٹس اول لینے والا کوئی نہیں اگر بالفرض محال اس کی سعی کی بھی جائے تو ثابت کرنا ممکن نہ ہو ،سوشل میڈیا پر موجود تصاویر کوئی قانونی ضرورت پوری کریںیا نہیں لیکن اس سے عوامی طور پر جو رائے قائم ہو رہی ہے جس طرح کی الزام تراشیاں جاری ہیں اس سے معاشرے میں نفرت اور تفریق ہی نہیں بڑھ رہی ہے بلکہ اس سے جمہوری عمل پر عوام کا اعتماد بھی اٹھ رہا ہے، اس صورتحال کا انتخابی حوالے سے نوٹس کیسے لیا جائے؟ یہ سوال اپنی جگہ کیا متعلقہ اضلاع کے حکام کے پاس کوئی ایسا قانونی راستہ نہیں جسے اختیار کرکے امداد کے نام پر ووٹ خریدنے کے عمل کی روک تھام کی جاسکے ،کیا انتخابات کے انعقاد تک عوامی اجتماع منعقد کرکے رقوم کی تقسیم کے عمل پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی ،امیدوار و ں کی جانب سے کروڑوں روپے خرچ کرنے کی مانیٹرنگ اور اس حوالے سے کوئی رپورٹ مرتب کرنا اتنا ناممکن امر ہے کہ اس کی روک تھام بالکل ہی ممکن نہیں، اس حوالے سے کوئی طریقہ کار وضع نہ ہو ا تو سینیٹ کے انتخابات کی طرح عام انتخابات بھی پوری طرح ”پیسہ پھینک تماشا دیکھ” کے مصداق بن جائیں گے اور ملک میں عدم شفاف انتخابات اور ووٹ خرید کر جیتنے کی ایک دوڑ شروع ہوگی اور رہی سہی کسر بھی پوری ہوگی۔

مزید پڑھیں:  بار بار کی خلاف ورزیاں