انتخابات کا انعقاد خطرے میں

انتخابی مہم اور عام انتخابات کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر دہشت گرد گروپوں کی جانب سے اسلام آباد، پنڈی، پشاور، کوئٹہ اور دیگر بڑے شہروں میں دہشت گردی کا خدشہ ہے، خفیہ اداروں نے17خودکش بمبار کے پاکستان پہنچنے کا الرٹ جاری کردیا ۔چار مختلف گروپوں کے17سے زائد دہشت گردوں کو ملک کے اہم شہروں میں دہشت گردی کا ٹاسک سونپے جانے کی خفیہ اطلاعات سامنے آئی ہیں،ایک سرکاری مراسلے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کابل میں تحریک طالبان پاکستان کی ٹاپ لیڈر شپ کا اجلاس ہوا ہے جس میں انہوں نے جنوری میں پاکستان کے اندر دہشت گرد کارروائیوں کا منصوبہ بنایا ہے جس میں راولپنڈی، اسلام آباد، خیبر پختونخوا میں نئے ضم ہونے والے اضلاع ڈی آئی خان،ٹانک، کوئٹہ، چمن، پشین اور دیگر علاقے نشانہ ہوسکتے ہیں،دوسرے مراسلے میں سپیشل رپورٹ کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ بلوچ سب نیشنلسٹ راولپنڈی و اسلام آباد میں اپنی کمیونٹی، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عملے کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، اس سلسلے میں میٹنگ افغانستان میں ہوئی جہاں 5جنگجوئوں کو ٹارگٹ سونپے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے ملک میں امن و امان کی صورتحال پیدا کرنے کے لئے (بی ایس این ایس) نے دشمن ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں خصوصاً بھارتی(را ) کی پشت پناہی سے سٹیٹ اداروں کے خلاف پراپیگنڈا مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔ایک ایسے وقت میں جب ملک میں سیاسی تقطیب کے باعث عام انتخابات کے انعقاد اور اس کے نکتہ نتائج و انتخابی ماحول اور یکساں مواقع نہ ملنے کی شکایات کیساتھ ساتھ خود سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کا ماحول بنانے میں ناکامی جیسے امور پہلے ہی آٹھ فروری کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال کا باعث ٹھہرتے ہیں، ایسے میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات کی جو امکانی پیشگی اطلاعی رپورٹ جاری کرکے جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے ایسے میں نہیں لگتا کہ ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہوگایا پھرعام انتخابات پر امن ماحول میں ہو سکیں گے، ان تمام عوامل کے پس پردہ عوامل کا بھی شکوک و شبہات میں کردار اپنی جگہ سکیورٹی اداروں کی جانب سے جس طرح ممکنہ خطرات کا انتباہ جاری کیاگیا ہے وہ عام انتخابات اور امن و امان ہر دو حوالوں سے قابل تشویش امر ہے جہاں تک ملک بھر میں انتخابی عمل کے حتمی مراحل میں سکیورٹی خدشات کا تعلق ہے تو سیاسی جماعتوں بالخصوص انتخابی عمل میں شریک جماعتوں کو اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کرنی چاہئے اس خدشے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ بعض کالعدم تنظیمیں انتخابی عمل کو نشانہ بناسکتی ہیں۔ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ایسا کیا طرز عمل اختیار کیا جائے جوخود حفاظتی اور تحفظ کے اقدامات کا حامل بھی ہو اور انتخابی مہم بھی چلائی جا سکے ۔ ہمارے تئیں سیاسی جماعتوں کوبڑے اجتماعات سے گریز اور چھوٹے اجتماعات کے انعقاد کرتے ہوئے سیاسی رہنمائوں اور امیدواروں کے تحفظ اور اجتماع میں شریک افراد کی سلامتی کو یقینی بنانے کو اولیت دینے کی ضرورت ہو ،گی ایسا تبھی ممکن نظر آتا ہے جب اجتماعات انعقاد کھلے مقامات کی بجائے چار دیواری کے اندر ہوں اور ساتھ یہ کوشش ہونی چاہئے کہ غیر مقامی افراد کی حاضری کی حوصلہ شکنی کی جائے ،صرف علاقے کے لوگ ہی اس میں شریک ہوں ،سب سے مؤثر انتخابی مہم گھرگھر جا کر ووٹروں سے رابطہ کی ہے جن کے تحفظ کی ذمہ داری مقامی انتظامیہ اور پولیس کی ہو گی، ساتھ ہی امیدواراور ان کی مہم چلانے والے حامی خود بھی ہوشیار اور چوکنا رہیں ۔ ملک بھر میں عام انتخابات کے انعقاد کے موقع پر سیاسی بنیادوں پر قتل امیدواروں اور انتخابی قافلوں پر حملے کے افسوسناک واقعات ہوتے رہے ہیں ،ایسی ہی ایک مہم کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی شخصیت شہید کردی گئیں ،ایسے میں امیدواروں پرحملے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اورکسی حلقے میں انتخابات ملتوی کرنے کی کسی امیدوار کا قتل یا حادثہ اہم وجہ ہوتی ہے، ان جزوی عوامل اور خود حفاظتی و احتیاط کی تدابیر کے ساتھ سب سے بڑی ذمہ داری بہرحال حکومت اور سکیورٹی اداروں پرعائد ہوتی ہے کہ انہوں نے جس محنت و جانفشانی سے وہ سارا منصوبہ بے نقاب کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور خیبر پختونخوا و بلوچستان اور پنجاب میں بالخصوص و ملک بھرمیں بالعموم ممکنہ حملوں کے خطرات کا بروقت انتباہ جاری کیا ہے، اس کے بعد یہ بھی ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان عناصر کو حرکت میں آنے سے قبل ہی دبوچ لیں ،سکیورٹی کی صورتحال کے انتخابی ماحول اور انتخابات کے انعقاد پر اثرات تو واضح ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے سکیورٹی کے اداروں کو ان خطرات سے نمٹنے میں کتنی کامیابی حاصل ہوتی ہے ،اگر خدانخواستہ ایک دو بڑے واقعات بھی ہوئے تو پھر انتخابات کا انعقاد خطرے میں پڑ جائے گا اور ملک کے جمہوری عمل سے محرومی کے خدشات بڑھ جائیں گے جس کے تدارک کا انحصار اچھی اور کامیاب انٹیلی جنس پر ہوگا۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کی اصل حقیقت