کیا تحریک انصاف انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنے جارہی ہے ؟

امن و امان کو برقرار ر کھنے کے لئے پنجاب بھر میں 12فروری تک کے لئے دفعہ 144 کے نفاذ کا فیصلہ سیاسی سرگرمیوں پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے نیز یہ کہ دفعہ 144 کے نفاذ کی آڑ میں کسی ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کو نشانہ بھی نہیں بنایا جانا چاہیے جیسا کہ سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ذمہ داران خدشات ظاہر کررہے ہیں کہ امن و امان کے نام پر ہمارے امیدواروں کی سرگرمیاں محدود کرنے کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ جہاں تک پنجاب سمیت ملک بھر میں انتخابی عمل کے حتمی مراحل میں سکیورٹی خدشات کا تعلق ہے تو سیاسی جماعتوں بالخصوص انتخابی عمل میں شریک جماعتوں کو اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کرنی چاہیے اس خدشے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ بعض کالعدم تنظیمیں انتخابی عمل کو نشانہ بناسکتی ہیں۔ حال ہی میں قائم ہونے والی ایک مسلح تنظیم تحریک مجاہدین پاکستان کی جانب سے انتخابی عمل کو خلاف اسلام قرار دیئے جانے اور دوسری جانب افغانستان کے صوبے کنٹر میں کالعدم ٹی ٹی پی کے چند دن قبل منعقد ہونے والے اجتماع میں کی گئی بعض تقاریر سے سکیورٹی خدشات مزید دوچند ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں سیاسی جماعتوں کو نہ صرف نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن سے کھلے دل کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے بلکہ سیاسی جماعتوں کے قائدین دیگر ذمہ داران اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے امیدواروں کو بھی تقاریر ا ور بیانات جاری کرتے وقت الفاظ کے چنائو میں بطور خاص احتیاط کرنی چاہیے۔ تقسیم در تقسیم کا شکار سماج میں گفتگوئوں اور تقاریر میں تلخی کسی بگاڑے کا باعث بن سکتی ہے خاکم بدہن اگر کسی بگاڑ کا دروازہ کھلا تو اس سے نہ صرف انتخابی عمل متاثر ہوگا بلکہ پہلے سے موجود سیاسی عدم استحکام بھی بڑھے گا۔ امر واقع یہ ہے کہ پچھلے چند دنوں سے بعض سیاسی رہنمائوں اور انتخابی امیدواروں نے اپنے اجتماعات میں تقاریرکرتے اور مختلف پروگراموں میں اظہار خیال کرتے ہوئے مخالفین کے لئے جو زبان استعمال کی وہ کسی بھی طرح درست نہیں ستم یہ ہے کہ شرافت کی سیاست کی علمبردار مسلم لیگ (ن)کے بعض مردوزن رہنماء حالیہ عرصے میں جو زبان استعمال کرتے دیکھائی دے رہے ہیں وہ شرافت کی سیاست کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ ہرگز نہیں۔ لیگی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے ان منہ زور مردوزن رہنمائوں کو سیاسی و معاشرتی اخلاقیات کے دائرے سے تجاوز کرنے سے باز رکھیں کیونکہ اگران کی زبان دانیوں کے جواب میں مخالفین نے بھی جوابی طور پر ٹھمریوں کی ریاضت کی تو اس سے انتخابی ماحول بری طرح متاثر ہوگا۔ ہماری دانست میں سیاسی قائدین اور امیدواروں کو رائے دہندگان کے سامنے اپنے انتخابی پروگرام اور مستقبل کے حوالے سے عزائم رکھنے کا پورا حق ہے۔ انتخابی عمل ہوتا ہی اس لئے ہے کہ سیاسی جماعتیں اور امیدواران رائے دہندگان کو اپنے منشور اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل سے آگاہ کریں ہر دو باتوں سے ہٹ کر سستی جگت بازی سے جمہوری عمل کی کوئی خدمت نہیں ہوپارہی بلکہ جمہوری عمل کی راہ میں کانٹے بوئے جارہے ہیں جو آنے والے دنوں میں ا پنی آنکھوں سے نکالنا پڑیں گے۔ اسی طرح پچھلے ایک ہفتہ کے دوران صرف لاہور میں پیپلزپارٹی کے تین انتخابی دفاتر پر حملوں کے علاوہ اس کے دو امیدواروں پر قاتلانہ حملوں کے معاملے پر بھی پی پی پی کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ نگران حکومت ایک طرف تو مسلم لیگ(ن) کو کھلم کھلا سپورٹ کررہی ہے تو دوسری جانب پی پی پی کے انتخابی دفاتر پر حملوں کا کوئی بھی نوٹس لینے کو تیار نہیں۔ انتخابی عمل میں شریک ایک سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ اس کے امیدواروں سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے کر ہر انتخابی حلقے میں الگ الگ نشان دینے کا فیصلہ ایسے ہی ہے جیسے ایک پہلوان کو ہاتھ پائوں باندھ کر اکھاڑے میں مخالف پہلوان کے سامنے ڈال دیا جائے۔ بادی النظر میں یہ مؤقف کچھ ایسا غلط بھی نہیں، یہ بجا ہے کہ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی اپیل کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکلا قانونی تقاضوں کو نظرانداز کرنے کیساتھ ساتھ ضروری دستاویزات کی عدالت کو فراہمی میں ناکام رہے اس کے باوجود اگر ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے پیش نظر درمیانی راستہ نکال کر پی ٹی آئی کو پابند کرلیا جاتا کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن عام انتخابات کے انعقاد کے بعد 30 دن کے اندر کرالے تو یہ زیادہ مناسب رہتا۔بہرطوراب پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد امیدواروں کی سی حیثیت حاصل مگر ابھی یہ سوال خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا پارٹی انتخابی نشان کی عدم دستیابی کے باوجود کسی پارٹی کی طرف سے بطور امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کرانے اور انتخابات میں حصہ لینے کیلئے مختلف نشانات کے باوجود پارٹی امیدوار ہی تصور ہوں گے کیونکہ پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ نہیں کی گئی؟ بظاہر اس اہم سوال کا جواب الیکشن کمیشن کو دینا چاہیے۔ سیاسی پارٹیوں کی رجسٹریشن اور انتخابی نشانات الاٹ کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ ادھر گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے عام انتخابات کے دوران فوج اورسول آرمڈفورسز تعینات کرنے کی منظوری دی ہے۔ فورسز وزارت داخلہ کی سفارش پر حساس حلقوں، پولنگ سٹیشنوں پر فرائض ادا کریں گی ۔ اس نوعیت کے انتظامات ماضی کے عام انتخابات کے دوران بھی ہوتے رہے ہیں اس بار ان انتظامات کی اہمیت اور ضرورت کو سکیورٹی خدشات کے تناظر میں دیکھنے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پرامن اورشفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے ہر شخص، سیاسی جماعت، امیدوار اور ادارہ اپنی اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کرنے سے پہلو تہی نہیں برتے گا تاکہ انتخابی عمل کا حتمی مرحلہ متنازعہ نہ ہونے پائے۔ یہاں ہم سابق وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کے حوالے سے انتخابی عمل کا آخری مرحلہ بر بائیکاٹ کئے جانے کے حوالے سے گردش کرتی افواہ نما خبروں پر یہ عرض کرنا ازبس ضروری سمجھتے ہیں کہ اگرسابق حکمران جماعت اوراس کے قائدین پولنگ ڈے سے ایک آدھ دن قبل کسی احتجاج اور بائیکاٹ کیلئے رائے بناچکے ہیں تو ایسا کرنا خودان کے اپنے مفاد میں بھی نہیں ہوگا۔ یہ بجا ہے کہ ایک بڑی جماعت کے مبینہ بائیکاٹ کی وجہ سے انتخابی عمل کی ساکھ متاثر ہوگی مگراسکے ساتھ ہی بائیکاٹ کے نتیجے میں خود پی ٹی آئی بھی پارلیمانی سیاست سے اگلے چند برسوں کے لئے باہر ہوجائے گی۔ پی ٹی آئی کے قائدین کویہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تحریک عدم اعتماد کے مرحلے میں قومی اسمبلی سے مستعفی ہونا اور بعدازاں غیرضروری طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے عاجلانہ فیصلوں سے پی ٹی آئی پارلیمانی طاقت سے محروم ہوکر تنہا رہ گئی،اس کے برعکس اگر پارلیمان میں رہنے کے ساتھ دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے فیصلے سے اجتناب برتا جاتا تو باقی ماندہ سولہ ماہ کے دوران پی ٹی آئی ایک طاقت کے طورپر نہ صرف موجود ہوتی بلکہ پی ڈی ایم حکومت کو واک اوور نہ ملتا۔ ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت کسی قسم کے غیردانشمندانہ و عاجلانہ فیصلے سے اجتناب کرے گی۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کی اصل حقیقت