تماش بینوں میں گھری ہوئی طوائف

وطن عزیز کی سیاست جس گرداب میں پھنس چکی ہے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا فیصلہ چاہے ثاقب نثار کا ہو یا کسی اور کا مشکل یہ ہے کہ جب بھی سیاسی مقدمات عدالتوں میں گئے انصاف کے عمل پر انگلیاں اٹھیں عدالتی فیصلے کے بعد اب آ ئندہ انتخابات کیسے ہوں گے اس کا رخ متعین ہو چکا ہے فیصلے کے قانونی نکات کمزور دفاع اور عدالت کا فیصلہ سب اپنی اپنی جگہ درست لیکن چونکہ یہ میدان سیاست کا ہے اس لئے اس کے سیاسی و انتخابی ماحول پر اثرات سے صرف نظر ممکن نہیں جس قدر ممکن تھا تحریک انصاف کو کونے کی جانب دھکیل دیا گیا لیکن کیا محض انتخابی نشان ایک نہ ہونے سے ووٹروں کی رغبت کا رخ موڑنا ممکن ہو سکے گا میرے خیال میں نہ ہونے کے برابر پی ٹی آئی جنونی عناصر کا ایک ایسا مجموعہ نظر آتا ہے کہ جہاں عمران خان کا نام آ ئے وہاں دلیل بھی کام نہیں آ تی ایسے میں بھڑوں کے چھتے کو جولات پڑی ہے اس کے بعد مزید بوٹ کی لات نہیں پڑنی چاہئے اور اگر لات پڑی بھی تو خالی ڈول کو پڑنے والی لات کی آ واز اتنی دھماکے دار ہوگی کہ اس کی سمع خراشی اور گونج خود صاحبان لات پر عالمی سطح کی تنقید کا باعث بن جائے گی اب بھی ان انتخابات کو انعقاد سے قبل ہی دھاندلی شدہ قرار دینے کی پوری آ واز سے بازگشت سنائی دے رہی ہے انتخابات جمہوریت کا حسن اور اس کی لازمی ضرورت ہوتی ہیں اگر اس طرح کا انتظام کاری ہی کرنی ہے جہاں منتخب و چنتخب کا فرق ہی مٹ جائے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ چنتخب ہی بٹھا دیئے جائیں انتخابات کے تکلف کی حاجت ہی کیا ہے؟؟وطن عزیز میں عوام کی رائے کو اہمیت نہ دینے کے نتائج کی طرف اشارہ کرنے کی مزید حاجت اس لئے نہیں کہ یہاں سبق سیکھنے اور عبرت حاصل کرنے کا تو کوئی رواج ہی نہیں بلکہ الٹا مزید سبق سکھانے کی تیاری اور نہ جانے یہ سلسلہ آ خر کب تک جاری رہے گا خاکم بدہن شائد ڈوبنے تک کہ جہاں حالات وتجر بات سے بھی آ نکھیں نہ کھلیں اور آنکھیں بند کرکے کنویں میں چھلانگ لگانے کا طریقہ ہی مروج رہے اس بھیڑ چال ہی کو کامیابی سمجھنے کا رجحان ہو تبدیلی و اصلاح کی سوچ معدوم ہو تو چہا ر سو اندھیرا دکھنا مقدر ٹھہر جائے اس وقت ملک میں انتخابات ہونے جارہے ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ امید کی کرن نظر آ ئے مگر معاملہ الٹ ہے ابھی سے نتائج مشکوک اور متوقع حکمرانوں کا اندازہ ہے اور روز بروز کی پیشرفت سے شکوک وشبہات کے باعث ان خیالات پریشاں کو تقویت ملتی جارہی ہے کیا کسی جمہوری ملک میں ایسا ممکن ہے قطعا نہیں وہاں سیاسی جماعتیں منشور پیش کرکے عوام سے حمایت کی متمنی ہوتی ہیں اور عوام ہر سیاسی جماعت کے منشور کے مطابق فیصلہ کرتی ہے پھر حکومت سے اسی کے مطابق توقعات کی وابستگی ہوتی ہے اور بصورت ناکامی اگلے انتخابات میں عوام اپنے ووٹوں سے اس ناکام اور وعدہ خلاف جماعت کا احتساب کرتی ہے یہی جمہوریت اور اس کی روح کہلاتی ہے کیا ہمارے ہاں ایسا ہوتا ہے نہیں بلکہ اس کا الٹ ہوتا ہے وہی لوگ بھیس بدلے بغیر کسی اور منظور نظر جماعت کا ٹکٹ لے کر آ جاتے ہیں اور عوام یہ سوچے بغیر کہ انہوں نے گزشتہ حکومت میں کیا تیر مارا تھا عوام کی غمخواری میں کتنے پتلے ہوئے تھے پھر انہی مداریوں کے جھانسے میں آ جاتی ہے کہیں برادری کے نام پر اور کہیں کسی اور تعصب پروہ تو مداریوں کے ڈگڈ کی پر ناچنے والے مفادات کے اسیر اور چوری چھپا نے کی مجبور ی کا شکار لوگ ٹھہرے عوام کی تو کوئی مجبور ی نہیں بلکہ وہ الٹا متاثر ین میں سے ہیں جن کو بہکنے کی بجائے احتساب کے موقع کو غنیمت جاننا چاہئے اور تمام تر سود وزیاں سے بالاتر ہوکر مگرمچھوں کی گردن پر ھاتھ ڈالنا چاہیے۔مگر ا لمیہ یہ ہے کہ عوام ایک بار پھر ان لوگوں ہی کی طرف متوجہ ہو تی ہے۔عوام بھی بیچا رے کریں تو کیا کریں بھی تو کیا کریں ان کے پاس چننے کی مشکل ہی نہیں شعور کا بھی فقدان ہے مستزاد عوام جسے چننا بھی چاہیں تو سو رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں یکے بعد دیگرے مختلف سیاسی جماعتوں کو آ زما بھی لیا لیکن کھوار زبان کے اس بولی کی طرح جس میں گدھی شکایت کررہی ہوتی ہے کہ وہ جو بھی جن کے دے ان کی پیٹھ سے بوجھ ہلکا نہیں ہونا ہے۔مگر ہم تو اشرف المخلوقات ہیں شعور رکھتے ہیں تو پھر اگر تقریبا سارے ہی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں تو پھر کسی ایسی جماعت کو کیوں بھول جاتے ہیں جو عوام کی بات کرتی ہو جو ملکی معاملات میں سنجیدگی سے فیصلہ کن انداز میں تبدیلی کی جد وجہد کی حامل ہو اس کا کھوج مشکل نہیں بشرطیکہ ہم اپنا ذہن بنا لیں۔ذرا غور کریں تو ہم جمہوری سوچ کی حامل قوم ہی نہیں لگتے اور نہ ہی جمہوری نظام میں ہمارے مسائل کا حل موجود ہے جمہوریت کے بارے میں علامہ اقبال نے ایسے ہی نہیں کہا تھا کہ جس میں بند وں کو گنا کرتے ہیں تو لا نہیں کرتے شعور کے ترازو میں تولا جائے تو جو وزن معلوم ہو اس کے مطابق فیصلے ہوں تو آ ج کا کوئی بھی حکمران تول پر پورا نہ اترے جمہوریت کے نام پر لگنے والی منڈی میں ایسا ہی ہونا ہوتا ہے اسی لیے تو خلافت کا تصور اور طریقہ کار پیش کیا گیا ہے جسے اختیار کرنے سے ایک ایسی مرکزی قیادت میسر آ تی ہے جو منظم قیادت کے ذریعے انتظام حکومت کو بصیرت افروز طریقے سے چلائے اور رعایا کے حقوق اور مفادات کو مقدم جانے اس وقت ملک میں جس قسم کے حالات اور صورتحال ہے اس کا حل جمہوریت نہیں خلافت کا قیام ہے جمہوریت بھی برا نظام نہیں مگر اس کے نام پر جس قسم کی قیادت ہمارے ہاں سامنے آ تی ہے اور جس قسم کی سیاست ہوتی ہے اسے بجا طور پر گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں قراردیا جا سکتا ہے یہی المیہ ہے اس وقت ملک بھر میں انتخابی مہم جیسے بھی ہے جاری ہے جوش و خروش ہے یا نہیں کسے لانے اور کسے باہر رکھنے کی تیاری ہو رہی ہے وہ بھی کوئی راز کی بات نہیں المیہ یہ ہے کہ خواہ کوئی بھی جماعت اور اس کے امیدوار ہوں منشور پربات نہیں کرتے جس امیدوار کو بھی سنو وہ مخالفین ہی کو نشانے پر رکھا ہوتا ہے سیاسی تنقید ذاتی معاملات تک بھی چلی جاتی ہے مگر ایسا کوئی پروگرام ایسی کوئی مثبت بات کوئی تجویز کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا جاتا جس سے امید کی کرن نظر آئے اور تو اور مسائل ہی پربات کرنے سے کنی کترانے کی کوشش نظرآتی ہے ۔ایسے میں اس طرح کے انتخابات کی کوکھ سے کچھ ایسا جنم لینا مشکل نظر آتا ہے جس کی عوام نے توقع لگائی ہوئی ہے جو لوگ بشمول ہم لکھاریوں کے انتخابات کے انعقاد ہی کو موجودہ حالات سے نکلنے اور مسائل کے حل کی راہ دکھاتے تھے وہ دن دور نہیں جب وہ دن بھی آئیں گے مگر افسوس سارے خیالات اور اندازے ایک مرتبہ پھر غلط ثابت ہونے کا خدشہ ہے صورتحال جوں کی توں ہی رہنے کا مشاہدہ اور تجربہ رہا ہے اور ایسے ہی کا اندازہ ہے پھر اس ساری تپسیا کا فائدہ سوائے اس کے کہ پانچ سال کے لئے نئے لوگ آنے کی رسم ہی پوری ہوگی چہرے بدلیں گے مگر نظام وہی کا وہی رہے گا اس کا حل ممکن ہے مگر اس کے لئے ہم عوام ہی تیار نہیں عوام جب تک ہر بار بہروپ بدلنے والوں کے بہروپ کا شکار ہوتے رہیں گے اور دیانتدار قیادت کا چنائو نہیں کریں گے حالات بھی جوں کے توں ہی رہیں گے اور بس۔
٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں:  پراسرار آتشزدگی