عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ ‘ایک اور موقع

عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کی جنوبی افریقہ کا کیس نہ سننے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزامات میں سے کچھ درست ثابت ہوئے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے دلائل میں قانونی وزن ہے اس لئے اسرائیل کے خلاف کیس خارج نہیں کیا جائے گا۔عالمی عدالت انصاف کی صدر نے جن کا تعلق امریکا سے ہے،فیصلے میں کہا کہ اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کا مقدمہ سننا جینوسائیڈ کنونشن کے تحت عدالت کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی عدالت انصاف کو نسل کشی کے مقدمے کا حتمی فیصلہ سنائے بغیر بھی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا اختیار رکھتی ہے۔ اسرائیل اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی فوجیں غزہ میں نسل کشی نہ کریں اور مبینہ نسل کشی کے شواہد کو محفوظ رکھا جائے۔ خیال رہے کہ جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں 84 صفحات پر مشتمل ایک قانونی درخواست جمع کروائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے اقدامات نسل کشی کے مترادف ہیں کیونکہ ان کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کے ایک اہم حصے کو تباہ کرنا ہے۔ فیصلے میں عالمی عدالتِ انصاف کا مزید کہنا ہے کہ اسرائیل کو عدالت کے سامنے ایک ماہ کے بعد ایک رپورٹ پیش کرنی ہو گی جس میں یہ بتانا ہو گا کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی سے بچنے کے لئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔جنوبی افریقہ جیسے غیر اسلامی ملک کا یہودیوںکیجانب سے مسلم کشی کے واقعات کی مذمت و روک تھام کے لئے عالمی عدالت سے رجوع اور امت مسلمہ کے ممالک کی اس حوالے سے بے حسی کا ماتم ہی نہیں بلکہ بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ مسلم کشی کے ان بدترین واقعات کے دوران بھی نام نہاد مسلم حکمران اسرائیلی حکومت کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں بہرحال یہ قدرت ہی کاانتظام ہے کہ ایک غیرمسلم اور غیر جانبدار ملک نے اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا جواسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے منہ میںزناٹے دار تھپڑ کے مترادف ہے مسلم ممالک میں ا ولاً حمیت کی کمی ہے اور دوم اگر وہ رجوع کرتے بھی تو اتنا موثر نہ ہوتا بہرحال امت مسلمہ کی بے حسی کارونا تونجانے کب تک جاری رہے گا اور متوقع واقعات جن کی پیشگوئی برسوں پہلے ہی ہوچکی ہے یکے بعد دیگرے کتنے عرصے میں پورے ہوں گے خطے کی حکومتیںاور اقتدار بدلیں گی اور بالاخر امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ہوگی اور بازی پلٹے گی تب تک تو ابتلاء کا دور ہی رہنا شاید مقدر ہو اور علاقائی ممالک کی بے حسی و امت مسلمہ کی بے حمیتی کابھی شاید وہ طے شدہ حقیقت ہوجوپوری ہو رہی ہے خطے کے ممالک بالخصوص اور دیگر اسلامی ممالک بالعموم اگر ایران ہی کے موقف و اقدامات کی حمایت ہی کرنے کا فیصلہ کرتے تو صورتحال مختلف ہوتی اس منظر نامے سے قطع نظر جہاں تک عالمی عدالت انصاف کی ہدایات واحکامات کا سوال ہے صیہونی ریاست سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس پرعملدرآمد کرے اور مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات کی روک تھام کرے ایسے میںعالمی عدالت انصاف کافیصلہ سوائے عالمی ضمیر کوجھنجھوڑنے غزہ کے مجاہدین اور عوام کی اخلاقی فتح اور برتری کے سوا کچھ نہیں انہوں نے اپنی لڑائی کل بھی اپنے بل بوتے پر لڑی تھی اور بقاء کی جنگ آگے بھی انہوںنے اکیلے ہی لڑنا ہے کسی سے خیرکی توقع نہیں لیکن امت مسلمہ اگر عسکری مدد کرنے سے معذور ہے توکم از کم متاثرہ آبادی کی انسانی بنیادوں پر دست گیری ہی کے لئے متحد اور سنجیدہ ہو اور یہ ایسا نکتہ ہے جس پر سوائے اسرائیل کے اور کوئی بھی ملک کھل کر معترض نہیں ہوگا دنیا بھرمیں بعض صیہونی مخالف یہودی و عیسائی تنظیموں اور غیرمسلموں نے جس طرح غزہ میں سویلین آبادی کوبدترین نشانہ بنانے کی مخالفت میں آوازاٹھائی اس کی بھی توفیق مسلم ممالک کونہ ہو سکی اب عالمی عدالت انصاف کی ہدایات و احکامات اور وہاں پر غزہ کی صورتحال کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیاگیا کم از کم اس موقع سے اسلامی ممالک فائدہ اٹھاتے ہوئے ان مجوزہ اقدامات ہی کوعملی جامہ پہنانے کی سعی کریں تو مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی کچھ اخلاقی و مالی دستگیری ہوگی ان کی مصیبت و مصائب میں کمی کی تدبیر کا اب سنہرا موقع ہاتھ آگیا ہے بشرطیکہ مسلم ممالک بے حمیتی کا مظاہرہ ترک کرکے مظلوم فلسطینیوں کی مدد کے لئے متوجہ اور متحد ہوں۔

مزید پڑھیں:  ملک چلے گا کیسے؟